تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
آپ روزانہ خبریں سن رہے ہیں تو یہ بات آپ کے لیے بالکل واضح ہوگی کہ صبح و شام یہ خبریں ملتی رہتی ہیں کہ اسرائیل نے اتنے نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا، اتنی بلڈنگز گرا دیں اور اتنے لوگ زخمی ہوگئے۔ دنیا کا ضمیر مر چکا ہے اور انسانی حقوق کے نام پر ملکوں پر قبضوں کرنے اور تہذیبوں کے نقوش مٹانے والے اپنے ہاتھوں سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ جیسے ہی خبر آئی کہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں تو اس قتل عام میں تیزی آ جاتی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے باقاعدہ میٹنگ کی کہ جنگ بندی کے مذاکرات سے پہلے جنگ میں تیزی لا کر زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا جائے اور حماس پر دباو بنایا جائے۔پیر کو 35 فلسطنیوں کو شہید کردیا، ہر روز یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ دس ماہ سے مسلسل یہ نسل کشی جاری ہے، لوگ تین تین بار بے گھر ہوچکے ہیں۔ اب پھر اسرائیل نے وارننگ دی ہے کہ غزہ کے ایک بڑے حصے کو خالی کیا جائے وہاں آپریشن کرنا ہے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ بھی چل رہا ہے۔ نیتن یاہو کی پالیسی یہ ہے کہ وہ جنگ کو طویل سے طویل کرے تاکہ اپنی حکومت کو دوام دے سکے، ساتھ میں جتنا عرصہ ممکن ہو جیل سے باہر رہے کیونکہ جتنی کرپشن اس نے کی ہے اس پر وزیراعظم کی سیٹ سے اترتے ہی جیل جائے گا۔ قارئین کرام کو یاد ہو گا امریکی یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اسرائیل کے قتل عام کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اسٹوڈنٹس اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس وقت بائیڈن نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور کہا بس ہوا ہی چاہتی ہے۔ یہ سارا ڈرامہ تھا کہ طلبہ کے احتجاج سے جان چھڑا لی جائے۔حقیقت میں جنگ بندی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ تین بار اسرائیل نے معاہدے کی تمام شرائط قبول کرنے کے باوجود معاہدہ نہیں کیا۔
اب پھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل کے دسویں دورے پر ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا مقصد سیز فائر کو قرار دیا ہے۔ ویسے تو ان کے دورے کا سیز فائر سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تو فقط امریکی الیکشن میں اپنی جماعت کی پوزیشن بہتر کرنے کی کوشش ہے۔ اسی ہفتے شگاگو میں الیکٹرل کانووکیشن میں ہو رہا ہے، امریکی وزیر خارجہ اس کو مینج کرنا چاہتے ہیں، اس لیے سیز فائر کی بات کی ہے اور اسرائیلی دورے پر چلے آئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کانووکیشن کے شرکاء کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نومبر تک وقت نکالا جائے۔ جیسے ہی امریکی الیکشن ہو جائے گا نیتن یاہو کے پاس ایک لمبا وقت ہوگا اور اگلا امریکی صدر بھی حالات سمجھنے کے نام پر چار پانچ ماہ تو لگا دے گا۔
امریکی سیکرٹری خارجہ بلنکن کہہ رہا ہے کہ دو اسرائیلیوں قیدیوں کو قتل کیا گیا ہے، یہ خطرناک ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے سیز فائر میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس کے منہ سے نہتے فلسطینیوں کے لیے ایک لفظ نہیں نکلتا جنہیں ہر روز اسرائیلی مار رہے ہیں۔ بار بار کہہ رہا ہے بیسٹ ڈیل، لاسٹ ڈیل، بیسٹ چانس ہے مگر یہ تو نو ماہ سے ایسا ہی چل رہا ہے۔ امریکی ویزرخارجہ کہہ رہا ہے کہ سیز فائر ہو رہی ہے اور بال حماس کے کورٹ میں ہے مگر ایک بار بھی نیتن یاہو نے یہ نہیں کہا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ اس نے پہلے کہا کہ ہم سیز فائر قبول کرتے ہیں پھر کہا ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ الفاظ کا چناو بہت کچھ بتا رہا ہے۔اسرائیل اصل میں ڈیل نہ ہونے کا الزام بھی حماس پر لگانا چاہتا ہے۔ امریکی بھی ڈھنڈورا پیٹ دیں گے اور میڈیا تو انہی کے کنٹرول میں ہے۔ سی آئی اے، موساد اور مصر کے انٹیلجنس چیفس مذاکرات کر رہے ہیں۔ حماس کی مذاکرات ٹیم کا سربراہ ہی شہید کردیا گیا۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ مذاکرات دراصل اسرائیل، امریکہ اور اسرائیلی گروپوں کے درمیان ہو رہے ہیں اس کا حماس اور فلسطینیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں بھی امریکہ مخلص نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ مخلص ہے تو جنگ بندی ہوتی کیوں نہیں ہے؟ جب اندرونی پریشر آتا ہے تو امریکی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اس پوزیشن میں ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان منصفی کر سکے؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیلی دفاع کی بات کرتا ہے، اسے اربوں ڈالر کی امدار اور اسلحے سے بھی مدد کرتا ہے۔ جنگ جاری ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ یہ جنگ جاری ہی رہے گی۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اگر یہاں جنگ رکتی ہے تو اس سے حماس اور ایران جیت جائیں گے، اس لیے وہ جنگ بندی کے خلاف ہیں۔
حزب اللہ نے ویڈیو جاری کی ہے جس میں اس نے اپنا ٹنل سسٹم دکھایا ہے اس میں موٹر سائیکلز اور ٹرک چل رہے ہیں۔ اس سے اسرائیلی جارحیت کی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ حزب اللہ نے اپنے طاقت کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کسی خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ جب چاہے جنوبی لبنان کو روندتا ہوا بیروت پہنچ جائے گا۔ طاقتور دفاعی نظاموں کی ویڈیوز نے اسرائیل پر بھی لرزا طاری کر دیا ہے کہ اگر اس نے جنگ مسلط کر دی تو بہت ہی خطرناک صورتحال درپیش ہوگی۔ ممکن ہے حزب اللہ کے جوان ان ٹنلز کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے اندر تک چلے جائیں۔ جب تک اسرائیل کو کوئی اس طرح کا خطرہ نہ ہو جس سے اسے جواب دیا جائے گا، یہ جنگ سے باز آنے والا نہیں ہے۔