تحریر: حمیرا عنبرین
Humera.ambareen@gmail.com
اربعین، اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش دن ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔ عربی زبان میں "اربعین" کا مطلب "چالیس" ہے اور یہ دن امام حسینؑ کی عظیم قربانی کے چالیس دن بعد کی یادگار ہے۔ امام حسینؑ کی شہادت نے اسلامی تاریخ میں ایک سنگ میل قائم کیا، جو آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی نے نہ صرف اسلامی اصولوں کی حفاظت کی بلکہ پوری انسانیت کے لیے حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔
اربعین کا دن نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی اور روحانی موقع ہے بلکہ یہ دن دنیا بھر میں ظلم کے خلاف جدوجہد کا ایک عالمی استعارہ بھی بن چکا ہے۔ امام حسینؑ نے دینِ محمدی (اصل دینِ اسلام) کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی اور ان کا یہ عمل آج بھی دنیا بھر میں مظلوموں کے لیے ایک امید کا پیغام ہے۔ اربعین کے موقع پر امام حسینؑ کی قربانی کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کے مشن کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ہم بھی ظلم کے خلاف حق و انصاف کے اصولوں کی پاسداری کریں گے۔
کربلا کا معرکہ: حق و باطل کا استعارہ
کربلا کا معرکہ اسلامی تاریخ کے سب سے اہم اور یادگار واقعات میں سے ایک ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو یہ درس دیا کہ حق و انصاف کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ معرکہ 680 عیسوی میں پیش آیا جب امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کیا کیونکہ یزید کا طرزِ حکومت دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے منافی تھا۔ یزید کی حکومت جبر، ظلم اور فساد پر مبنی تھی اور امام حسینؑ نے اس کے سامنے حق کی آواز بلند کی۔
امام حسینؑ کا انکار اس بات کا ثبوت ہے کہ دین محمدی کی اصل روح عدل، انصاف، اور سچائی پر مبنی ہے اور جب ان اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہو، تو مومن کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں۔ امام حسینؑ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں اپنی جانیں قربان کرکے یہ ثابت کیا کہ ظلم کے خلاف مزاحمت ہر مومن کا فرض ہے، چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
کربلا کا یہ معرکہ آج کے دور میں بھی ایک روشن مثال ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب باطل قوتیں حق کو مٹانے کے درپے ہوں، تو ایمان کی سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کی قربانی ضروری ہے۔ یہ واقعہ ایک دائمی استعارہ بن چکا ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانا اور حق و انصاف کے لیے اپنی جان کی قربانی دینا، اسلام کی حقیقی تعلیمات کا حصہ ہے۔
اربعین مَشی: کربلا کی خاک پر حق و صداقت کا سفر
اربعین مَشی، جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو کربلا کی جانب کھینچ لاتی ہے، ابتدا میں ایک مذہبی فریضہ کے طور پر شروع ہوئی تھی۔ یہ واک امام حسینؑ کی قربانی کی یاد میں ایک مقدس فریضہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اربعین مَشی میں شریک ہونے والے زائرین نہ صرف امام حسینؑ کی قربانی کو یاد کرتے ہیں بلکہ ان کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا عہد بھی کرتے ہیں۔
اربعین مَشی کی روایت میں زائرین سینکڑوں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے ہیں تاکہ کربلا پہنچ سکیں۔ یہ سفر عمومی طور پر 20 دنوں پر محیط ہوتا ہے، جس میں زائرین عراق اور ایران کے مختلف شہروں سے پیدل چلتے ہوئے کربلا کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ اس سفر کا مقصد امام حسین کی قربانی کی یاد منانا اور ان کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانا ہے۔
نجف سے کربلا تک کا سفر، جو تقریباً 80 کلومیٹر پر محیط ہے، اس مَشی کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت ہے۔ نجف، جہاں امام علی علیہ السلام مدفون ہیں، سے کربلا تک کا یہ سفر نہ صرف جسمانی مشقت کا تقاضا کرتا ہے بلکہ یہ ایک گہرے روحانی تجربے کا بھی حصہ ہے۔ زائرین، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، اس سفر کو امام حسینؑ کے اصولوں کی یاد میں طے کرتے ہیں۔ یہ سفر ایمان کی تازگی اور روحانی تجدید کا ایک ذریعہ بنتا ہے، جہاں ہر قدم امام حسینؑ کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔
اربعین مَشی کا یہ سفر ایک عقیدتی فریضہ سے زیادہ، ایک عالمی تحریک کی صورت میں سامنے آتا ہے، جہاں دنیا بھر سے لوگ نہ صرف امام حسینؑ کی یاد میں بلکہ ان کے اصولوں کو اپنانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اربعین مَشی میں شامل ہونے والے زائرین کے لیے یہ سفر ایک روحانی تجدید، عزم کی تجدید، اور امام حسینؑ کے پیغام کے ساتھ جڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔
زیارتِ اربعین: ایک مقدس دعا اور انسانی فطرت کی عالمی ضرورتیں
زیارتِ اربعین ایک دعائیہ کلام ہے جو امام حسینؑ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، ان کی فضیلتوں اور قربانیوں کو یاد کرتا ہے اور اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ زیارت کرنے والا امام حسینؑ کے مشن کا حامی اور ان کے دشمنوں کا مخالف ہے۔ یہ دعا اللہ کی حمد سے شروع ہوتی ہے اور امام حسینؑ کو اللہ کے منتخب کردہ رہنما کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔
زیارتِ اربعین امام حسینؑ کی جدوجہد کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں پر زور دیتی ہے، جو یزید کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تھی۔ اس دعائیہ کلام میں امام حسینؑ کی مشکلات اور مصائب کے لیے گہرا غم و اندوہ ظاہر کیا جاتا ہے اور زیارت کرنے والا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ امام حسینؑ کے راستے پر چلتے ہوئے حق و انصاف کی حمایت کرے گا۔
زیارتِ اربعین کا عمل بہت سے مومنین کے لیے روحانی تجدید اور امام حسین کے اصولوں کے قریب تر ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ زیارت اچھائی اور برائی، انصاف اور ظلم کے درمیان جاری جدوجہد کی یاد دہانی کراتی ہے اور مومنین کو اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی تلقین کرتی ہے۔
زیارتِ اربعین کو روحانی تطہیر کا ایک طاقتور ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ ہے کہ خلوص دل سے اس زیارت کی ادائیگی کے ذریعے مومن کے گناہ معاف کئے جا سکتے ہیں اور وہ ایک بلند روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے۔ یہ زیارت عالمی مسلمانوں کی برادری کے ساتھ یکجہتی کا ایک ذریعہ بھی ہے، جو لاکھوں افراد کو ایمان اور عقیدت کے اظہار میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتی ہے۔
عوامی انتظامات: سخاوت اور مہمان نوازی کی بے مثال مثال
اربعین مَشی کی سب سے منفرد اور قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام انتظامات عوامی سطح پر کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک عوامی حمایت یافتہ ایونٹ ہے، جس میں نہ کوئی تنظیم ملوث ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔ یہ عوام کی جانب سے کی جانے والی رضاکارانہ خدمات کا ایک بے مثال مظاہرہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرتا ہے۔
اربعین مَشی کے دوران زائرین کے لیے جگہ جگہ عوامی موکب (عارضی خیمے یا اسٹیشن) لگائے جاتے ہیں۔ یہ موکب عام طور پر مقامی لوگوں، دکانداروں، اور خاندانوں کی طرف سے لگائے جاتے ہیں، جو اپنی جیب سے خرچ کر کے زائرین کے لیے کھانا، پانی، آرام کی جگہیں اور دیگر ضروریات فراہم کرتے ہیں۔
یہ موکب نہ صرف جسمانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ زائرین کو روحانی سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان موکب میں قرآنی آیات کی تلاوت، نعت خوانی، اور امام حسینؑ کی شہادت کی یاد میں تقاریر کی جاتی ہیں، جو زائرین کے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور انہیں امام حسین کے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
موکب کی یہ روایت نہ صرف عراق اور ایران کے لوگوں تک محدود ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین بھی ان خدمات میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک عالمی سطح پر یکجہتی اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ ہے، جو امام حسینؑ کے اصولوں پر عمل کرنے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
امام حسینؑ کا پیغام: انسانی فطرت کی عالمگیر ضرورت
امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کی بنیادی ضروریات کو مخاطب کرتا ہے جو صدیوں سے تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی، انصاف اور انسانی وقار کی پاسداری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ اصول دراصل انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور ہر انسان کے دل میں بسنے والی فطری ضرورتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ پیغام کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، سچائی اور انصاف کے اصولوں پر ڈٹے رہنا اور انسانی وقار کی حفاظت کرنا ہر انسان کا فرض ہے، ایک عالمگیر سچائی بن چکا ہے۔ اربعین کی زیارت میں شرکت کرنے والے لاکھوں افراد، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو، اسی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے امام حسینؑ کے مشن کو زندہ رکھتے ہیں۔
یہی وہ عالمگیریت ہے جو امام حسینؑ کے پیغام کو آج کے دور میں بھی زندہ اور متعلقہ بناتی ہے۔ اربعین کی زیارت میں شرکت کرنے والے افراد اس بات کا عملی اظہار کرتے ہیں کہ امام حسینؑ کا پیغام کسی ایک مذہب یا قوم تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی آفاقی صداقت ہے جو پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس پیغام کی طاقت اور اس کی گہرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اربعین کی زیارت اب محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو ہر انسان کے دل کی آواز بن چکی ہے۔
مختلف عقائد کے لوگوں کی شرکت: انسانی اتحاد کی علامت
اربعین کے موقع پر مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو اس بات کا غماز ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام کسی ایک مذہب یا قوم تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہ اتحاد اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امام حسینؑ کے اصول، جو انصاف، بھائی چارے اور انسانی وقار پر مبنی ہیں، دراصل انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں۔
مختلف عقائد کے لوگوں کی اربعین کی زیارت میں شرکت اس بات کی عکاس ہے کہ امام حسین کی قربانی اور ان کے اصول انسانیت کے دلوں میں گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ یہ اصول انسان کی فطری ضرورتوں اور اس کی آفاقی سچائیوں کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر دور اور ہر معاشرے میں قابلِ عمل ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں مختلف عقائد کے لوگ اربعین کی زیارت میں شامل ہوتے ہیں؟ اس کا جواب امام حسینؑ کے پیغام کی عالمگیریت میں مضمر ہے۔ ان کی قربانی اور ان کے اصول کسی ایک مذہب کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ اصول ہر مذہب اور ثقافت کے لوگوں کے دلوں کو چھوتے ہیں۔ امام حسینؑ کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے والے افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ظلم کے خلاف مزاحمت، حق و صداقت کی پاسداری، اور انسانی وقار کی حفاظت وہ اصول ہیں جو ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔
اربعین کی زیارت کا عالمی اثر: ایک روشن استعارہ
اربعین کی زیارت نے ثابت کیا ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام دنیا بھر میں لوگوں کے لیے ایک روشن استعارہ بن چکا ہے۔ دنیا کی مشہور شخصیات، جیسے زویلیویل منڈیلا اور توشار گاندھی، نے امام حسینؑ کے پیغام کی تعریف کی ہے اور اسے عالمی سطح پر انصاف اور انسانی وقار کے لیے جدوجہد کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا ہے۔
ان شخصیات کے اربعین میں شامل ہونے اور کربلا کا دورہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام دنیا کے ہر گوشے میں سنا جا رہا ہے اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ امام حسینؑ کا پیغام، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور انصاف کے قیام کی علامت ہے، آج بھی دنیا بھر میں مظلوموں اور انصاف کے متلاشیوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
اربعین کی زیارت اور اس کی عالمگیریت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام انسانیت کی فطری ضرورتوں کا عکاس ہے۔ یہ پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ اور طاقتور ہے جتنا کہ 1300 سال پہلے تھا، اور اس کی روشنی میں دنیا بھر کے لوگ اپنے معاشروں میں انصاف اور انسانی وقار کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
امام حسینؑ کا پیغام اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق و صداقت کی پاسداری ہر انسان کا فرض ہے، اور اربعین کی زیارت اس بات کی عکاس ہے کہ یہ اصول انسانی فطرت کا حصہ ہیں جو ہر زمانے اور ہر معاشرے میں قابلِ عمل رہیں گے۔
امام حسینؑ کی وراثت : اسلام کا حقیقی چہرہ اور مسلمانوں کا فخر
امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کے لیے فخر و مباہات کا ایک ایسا عظیم ذریعہ ہیں جس کی مثال تاریخ میں نایاب ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ان کے رہبر و رہنما نے انسانیت کی عظمت اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے کس طرح بے مثال قربانی دی۔ امام حسینؑ کی شخصیت مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی میں وہ دوسرے مذاہب اور قوموں کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا مظہر پیش کر سکتے ہیں۔
آج جب دنیا کے کئی حصوں میں اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام حسینؑ کی قربانی کی حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ ثابت کریں کہ 61 ہجری میں بھی انہوں نے ظلم اور جبر کے سامنے نہ جھکنے کا عزم کیا تھا۔ امام حسینؑ کی قربانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ان افراد کی قربانی کی عظیم مثال ہے جنہوں نے اپنے نواسے، نواسیوں اور حتی کہ معصوم بچوں کے ہمراہ یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔
امام حسینؑ کی قربانی مسلمانوں کے لیے ایک ناقابل فراموش سبق ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے دور میں بلکہ آج بھی، دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کیا۔ یہ قربانی مسلمانوں کے لیے ایک طاقتور پیغام ہے کہ اسلام کی بنیاد امن، محبت اور انسانیت کی خدمت پر قائم ہے اور امام حسینؑ کی قربانی اس اصول کی حفاظت کے لیے ایک تاریخی مثال ہے۔ اس عظیم قربانی پر فخر کرتے ہوئے، مسلمان دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر سکتے ہیں، جو عدل، انصاف اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہمیشہ سے کھڑا رہا ہے۔