Saturday 16 Sep 2023 20:07
تحریر: سید خاور عباس (فاضل قم)
حالیہ ایام میں مختلف مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد سے تحریروں کے ذریعے واسطہ رہا، اس بات چیت سے ایک نفسیاتی کیفیت کا بار بار سامنا کیا وہ شخصیت پرستی اور اس کا اثر تھا جو تقریباً ہر دھڑے کے افراد میں پائی جاتی ہے، یہ نفسیاتی بیماری اگرچہ معاشرے کے سیاسی اور دوسرے طبقوں میں بھی پائی جاتی ہے، مگر مذہبی تنظیمی طبقوں میں دینی رنگ کی وجہ سے اس میں شدت بہت بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ شخصیت پرستی پرستاروں، خود شخصیات، حقیقی ہیروز اور معاشرے کو شدید اور بعض اوقات ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ پرستار یا مریدوں کا دماغ بند مٹھی کی طرح کام کرتا ہے۔ جب آپ کسی چیز کو اپنی ہتھیلی میں رکھ کر زور سے بند کر لیتے ہیں تو باہر سے کوئی نئی چیز اس میں داخل نہیں ہو پاتی اور اگر کوئی آپ کی بند مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے، تو آپ مزاحمت کرتے ہیں اور اپنی مٹھی کو پہلے سے زیادہ سختی سے دباتے ہیں۔ چہ بسا اس دباؤ کے نتیجے میں مٹھی میں موجود چیز بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ مرید بھی اپنے ذہن کے تمام دروازوں کو مٹھی کی مانند بند کرلیتا ہے اور کسی بھی نئی سوچ کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔
یہ بیماری روایتی اور جاہل معاشروں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شخصیت پرستی کا سب سے زیادہ نقصان انہی مریدوں اور پرستاروں کو پہنچتا ہے جو کرداروں کے "بت" بناتے ہیں اور پھر "اچھے"، "برے"، "صحیح"، "غلط" اور ہر چیز کو اس (محبوب شخصیت) کے پیمانے پر ناپتے ہیں، یوں ان کے پاس کسی قسم کی سوچ کی آزادی نہیں رہتی اور پرستار اس امر سے غافل ہوتا ہے کہ چاہے وہ سوچ اور وہ کردار درست ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ خود اس درست سوچ تک اپنی فکری کاوش سے نہیں پہنچے گا اس وقت تک فکری غلام اور اسیر رہے گا۔ دوسرا برا اثر یہ ہوتا ہے کہ کیونکہ ان لوگوں کی اپنی کوئی رائے تشکیل نہیں پاتی نتیجتاً جب ان سے بحث کی جاتی ہے تو یہ اپنے اندر کے خالی پن کو چھپانے کے لئے دفاع کے بجائے حملہ آور ہوتے ہیں، محبوب شخصیت کے مقابلے میں آنے والے ہر شخص پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔
شخصیت پرستی کا نقصان صرف پرستاروں کو ہی نہیں ہوتا بلکہ خود شخصیت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے، شخصیات کو جب اندھی محبت اور پیروی ملتی ہے تو وہ شخصیت خودپسندی کا شکار ہوجاتی ہے، خود کو تنقید سے بالاتر سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پرستار اپنی محبوب شخصیت کو ویسا نہیں دیکھنا چاہتے جیسا وہ ہے بلکہ وہ اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ چاہتے اور توقع کرتے ہیں تو فطری طور پر وہ شخصیت بھی مداحوں کے ان تمام اندھے اور غیر معقول تعصبات کو اپنی بقا کے لئے استعمال کرتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسا مقام کھونا چاہتے ہیں۔ شخصیت پرستی جو گہری ضرب معاشرے پر لگاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں تولید "فکر" کا باب بند ہوجاتا ہے، شخصیت کی اندھی محبت میں گرفتار معاشرے نئے خیالات کو جنم دینے کے قابل نہیں رہتے اور غلاموں کی طرح دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔
دوسرا نقصان یہ کہ معاشرہ دو گروہوں میں بٹ جاتا ہے۔ شاگردوں اور مریدوں کا پہلا گروہ جو اس کو مقدس مانتے ہیں اور اپنے ہیرو کے خلاف کسی بھی رائے کو ناقابل معافی "گناہ" سمجھتے ہیں اور ان کی بلا شک و شبہ اطاعت کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ اس کے مخالفین پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو پہلے گروہ کے سبب اپنے تمام وجود کے ساتھ اس شخصیت اور اس کے اعمال کے خلاف ہو جاتے ہیں، یعنی وہ اس کے عقائد سے متفق نہیں کیونکہ اس کا عقیدہ ہے، وہ اس کے طرز عمل سے متفق نہیں ہیں، کیونکہ اسکا طرز عمل ہے اور یہ گروہ بھی پہلے گروہ جیسی حالت پر ہوتا ہے۔ شخصیت پرستی سے بچنے کے لیے ایک سادہ راہ حل یہ ہے ہر نظریے اور عمل کے لیے "درست" اور "غلط" ہونے کا احتمال دیں، کسی بات پر بھی مطلق یقین نہ کریں، خدا اور اس کے منصوص نمائندوں کے کلام کے سوا کسی کا کلام بھی سو فیصد "یقینی" نہیں ہے۔ برٹرینڈ رسل کہتا ہے: "میں اپنے افکار کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں غلط ہو سکتا ہوں۔"
دوسرا آسان طریقہ یہ کہ آپ خود چیزوں کے حوالے سے سوچیں، کبھی کبھی ہمیں خود بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم دوسرے لوگوں کے خیالات کے غلام ہیں، ہم اسی طرح سوچتے، محسوس کرتے اور زندگی گزارتے ہیں جس طرح دوسرے چاہتے ہیں، یاد رکھیں جب ہم میں فکر کی پیداوار رک جاتی ہے تو کمپلیکس کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور آخر میں، جب ہم کسی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہمیں اپنے ذہن کو ان تعصبات اور اچھے اور برے فیصلوں سے خالی کریں جو ابھی تک کر رکھے ہیں۔ کرداروں کا مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو خالی کرلیں اور محبت اور نفرت کے جذبات کو اپنے استدلال، سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ یہ تمام اثرات تنظیم پرستی، فرقہ پرستی میں بھی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں، اللہ ہمیں جہالت اور جذبات کی سطح سے بڑھ کر علم اور شعور سے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حالیہ ایام میں مختلف مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد سے تحریروں کے ذریعے واسطہ رہا، اس بات چیت سے ایک نفسیاتی کیفیت کا بار بار سامنا کیا وہ شخصیت پرستی اور اس کا اثر تھا جو تقریباً ہر دھڑے کے افراد میں پائی جاتی ہے، یہ نفسیاتی بیماری اگرچہ معاشرے کے سیاسی اور دوسرے طبقوں میں بھی پائی جاتی ہے، مگر مذہبی تنظیمی طبقوں میں دینی رنگ کی وجہ سے اس میں شدت بہت بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ شخصیت پرستی پرستاروں، خود شخصیات، حقیقی ہیروز اور معاشرے کو شدید اور بعض اوقات ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ پرستار یا مریدوں کا دماغ بند مٹھی کی طرح کام کرتا ہے۔ جب آپ کسی چیز کو اپنی ہتھیلی میں رکھ کر زور سے بند کر لیتے ہیں تو باہر سے کوئی نئی چیز اس میں داخل نہیں ہو پاتی اور اگر کوئی آپ کی بند مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے، تو آپ مزاحمت کرتے ہیں اور اپنی مٹھی کو پہلے سے زیادہ سختی سے دباتے ہیں۔ چہ بسا اس دباؤ کے نتیجے میں مٹھی میں موجود چیز بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ مرید بھی اپنے ذہن کے تمام دروازوں کو مٹھی کی مانند بند کرلیتا ہے اور کسی بھی نئی سوچ کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔
یہ بیماری روایتی اور جاہل معاشروں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شخصیت پرستی کا سب سے زیادہ نقصان انہی مریدوں اور پرستاروں کو پہنچتا ہے جو کرداروں کے "بت" بناتے ہیں اور پھر "اچھے"، "برے"، "صحیح"، "غلط" اور ہر چیز کو اس (محبوب شخصیت) کے پیمانے پر ناپتے ہیں، یوں ان کے پاس کسی قسم کی سوچ کی آزادی نہیں رہتی اور پرستار اس امر سے غافل ہوتا ہے کہ چاہے وہ سوچ اور وہ کردار درست ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ خود اس درست سوچ تک اپنی فکری کاوش سے نہیں پہنچے گا اس وقت تک فکری غلام اور اسیر رہے گا۔ دوسرا برا اثر یہ ہوتا ہے کہ کیونکہ ان لوگوں کی اپنی کوئی رائے تشکیل نہیں پاتی نتیجتاً جب ان سے بحث کی جاتی ہے تو یہ اپنے اندر کے خالی پن کو چھپانے کے لئے دفاع کے بجائے حملہ آور ہوتے ہیں، محبوب شخصیت کے مقابلے میں آنے والے ہر شخص پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔
شخصیت پرستی کا نقصان صرف پرستاروں کو ہی نہیں ہوتا بلکہ خود شخصیت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے، شخصیات کو جب اندھی محبت اور پیروی ملتی ہے تو وہ شخصیت خودپسندی کا شکار ہوجاتی ہے، خود کو تنقید سے بالاتر سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پرستار اپنی محبوب شخصیت کو ویسا نہیں دیکھنا چاہتے جیسا وہ ہے بلکہ وہ اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ چاہتے اور توقع کرتے ہیں تو فطری طور پر وہ شخصیت بھی مداحوں کے ان تمام اندھے اور غیر معقول تعصبات کو اپنی بقا کے لئے استعمال کرتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسا مقام کھونا چاہتے ہیں۔ شخصیت پرستی جو گہری ضرب معاشرے پر لگاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں تولید "فکر" کا باب بند ہوجاتا ہے، شخصیت کی اندھی محبت میں گرفتار معاشرے نئے خیالات کو جنم دینے کے قابل نہیں رہتے اور غلاموں کی طرح دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔
دوسرا نقصان یہ کہ معاشرہ دو گروہوں میں بٹ جاتا ہے۔ شاگردوں اور مریدوں کا پہلا گروہ جو اس کو مقدس مانتے ہیں اور اپنے ہیرو کے خلاف کسی بھی رائے کو ناقابل معافی "گناہ" سمجھتے ہیں اور ان کی بلا شک و شبہ اطاعت کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ اس کے مخالفین پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو پہلے گروہ کے سبب اپنے تمام وجود کے ساتھ اس شخصیت اور اس کے اعمال کے خلاف ہو جاتے ہیں، یعنی وہ اس کے عقائد سے متفق نہیں کیونکہ اس کا عقیدہ ہے، وہ اس کے طرز عمل سے متفق نہیں ہیں، کیونکہ اسکا طرز عمل ہے اور یہ گروہ بھی پہلے گروہ جیسی حالت پر ہوتا ہے۔ شخصیت پرستی سے بچنے کے لیے ایک سادہ راہ حل یہ ہے ہر نظریے اور عمل کے لیے "درست" اور "غلط" ہونے کا احتمال دیں، کسی بات پر بھی مطلق یقین نہ کریں، خدا اور اس کے منصوص نمائندوں کے کلام کے سوا کسی کا کلام بھی سو فیصد "یقینی" نہیں ہے۔ برٹرینڈ رسل کہتا ہے: "میں اپنے افکار کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں غلط ہو سکتا ہوں۔"
دوسرا آسان طریقہ یہ کہ آپ خود چیزوں کے حوالے سے سوچیں، کبھی کبھی ہمیں خود بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم دوسرے لوگوں کے خیالات کے غلام ہیں، ہم اسی طرح سوچتے، محسوس کرتے اور زندگی گزارتے ہیں جس طرح دوسرے چاہتے ہیں، یاد رکھیں جب ہم میں فکر کی پیداوار رک جاتی ہے تو کمپلیکس کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور آخر میں، جب ہم کسی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہمیں اپنے ذہن کو ان تعصبات اور اچھے اور برے فیصلوں سے خالی کریں جو ابھی تک کر رکھے ہیں۔ کرداروں کا مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو خالی کرلیں اور محبت اور نفرت کے جذبات کو اپنے استدلال، سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ یہ تمام اثرات تنظیم پرستی، فرقہ پرستی میں بھی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں، اللہ ہمیں جہالت اور جذبات کی سطح سے بڑھ کر علم اور شعور سے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1081987
منتخب
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
24 Dec 2024