تحریر: سعید سبحانی
جب سے چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پایا ہے، امریکی اور یورپی حکام مسلسل تشویش کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ مشرق وسطی میں نئے سفارتی اور سکیورٹی سیٹ اپ کے قیام کے بعد امریکہ اور یورپ اپنے غیض و غضب کو چھپانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی میں مسلسل اور دائمی طور پر بدامنی ایجاد کرنا، مغربی طاقتوں کی ایک اہم حکمت عملی رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اس خطے میں امن اور استحکام نہیں دیکھنا چاہتیں کیونکہ خطے میں ایجاد کردہ عدم استحکام اور انارکی انہیں بہت آسانی سے خطے کے امور میں مداخلت کا بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات میں فروغ آ جانے کے بعد امریکی حکام کا غیض و غضب اور حالیہ اقدامات بھی اسی تناظر میں قابل فہم ہیں۔
امریکہ کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں جمود اور خطے میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے اپنے اور اتحادی ممالک کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کرنے کیلئے مشرق وسطی کا غیر متوقع دورہ کیا ہے۔ ان کا یہ دورہ سیاسی اور اسٹریٹجک پہلووں پر مشتمل ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادی ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مطمئن کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اینتھونی بلینکن کا دورہ مشرق وسطی ایسے وقت انجام پایا ہے جب متحدہ عرب امارات سرکاری طور پر امریکہ کی سربراہی میں نیوی اتحاد میں مزید باقی نہ رہنے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ اتحاد گذشتہ سال مئی میں تشکیل پایا تھا۔ امریکہ خطے میں ایک ایک کر کے اپنے مورچے گنوا رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق اینتھونی بلینکن کا یہ دورہ 6 جون سے 8 جون تک ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ کے معاون ڈینیئل بینم نے اپنے ایک بیانیے میں اعلان کیا ہے کہ اینتھونی بلینکن کے حالیہ دورہ مشرق وسطی کا ایک مقصد اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ امریکہ ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر مشرق وسطی میں اپنے موجودگی برقرار رکھے گا اور ایسا خلا پیدا نہیں ہونے دے گا جس سے اس کے دوسرے حریف فائدہ اٹھا سکیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات پر مبنی معاہدہ انجام پانے نیز عرب لیگ میں شام کی واپسی کے تین ماہ بعد انجام پا رہا ہے۔ گذشتہ ماہ عرب لیگ کا اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوا جس میں شام کے صدر بشار اسد نے بھی شرکت کی۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کے معاون کا موقف سمجھنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ واشنگٹن مشرق وسطی خطے میں اپنی پوزیشن شدید متزلزل اور کمزور محسوس کر رہا ہے۔
خطے میں امریکہ کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کے تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے وزارت خارجہ کے تمام مشیروں اور عہدیداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ خطے کے مسلسل دوروں کو اپنے مستقل ایجنڈے میں شامل کر لیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلیوان کے دورہ سعودی عرب کے کچھ ہفتے بعد انجام پا رہا ہے۔ اس سے ایک سال پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جیک سیلیوان نے مئی کے مہینے میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کے بارے میں بات چیت کی۔ مزید برآں، جیک سیلیوان نے متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زاید آل نہیان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مدمقابل کو خطے سے متعلق امریکی پالیسیوں کی حمایت پر راضی کرنا تھا۔
اخبار بلوم برگ لکھتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی جانب سے سعودی عرب کے مسلسل دوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن حکومت واشنگٹن ریاض تعلقات میں پیدا ہونے والے جمود کو ختم کرنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت مزید بحران کا شکار ہوئے جب "اوپیک پلس" نامی گروہ تشکیل پایا۔ اس گروہ میں اوپیک کے 13 رکن ممالک اور روس شامل ہیں اور اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں اوپیک پلس کے اجلاس میں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں برقرار رکھنے کیلئے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس وقت وائٹ ہاوس نے اس فیصلے کو ماسکو کے حق میں قرار دیا تھا اور سعودی عرب پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ امریکہ اور روس کے درمیان جاری مقابلہ بازی میں روس کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات اس وقت مزید تناو کا شکار ہو گئے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بائیڈن حکومت کے گذشتہ دو سالوں میں امریکی اور سعودی حکام کئی بار ایکدوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ حتی گذشتہ برس جولائی میں جب جو بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو سعودی ولیعہد بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات بھی بند دروازوں کے پیچھے ہوئی۔ بعض سیاسی ماہرین کی نظر میں اینتھونی بلینکن کا حالیہ دورہ مشرق وسطی سعودی عرب سے تعلقات میں بحالی کی خاطر انجام پایا ہے۔ اس دورے کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اتحاد کو مضبوط ظاہر کرنا ہے۔ ایسا اتحاد جو اس وقت امریکہ میں صرف کاغذوں کی حد تک ہے۔ امریکہ کو یہ حقیقت قبول کر لینی چاہئے کہ عالمی نظام میں اس کا اثرورسوخ زوال پذیر ہو چکا ہے۔