0
Monday 14 Dec 2009 14:19
غزہ پر اسرائیلی حملے کی پہلی برسی کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ:

اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا: برطانوی اخبار

اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا: برطانوی اخبار
ایک برطانوی اخبار "دی انڈیپنڈنٹ" نے گذشتہ برس دسمبر میں غزہ پر کیے گئے اسرائیلی حملے کے ایک سال مکمل ہونے پر رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کی حدت اور شدت اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت غیر معمولی تھی جس میں بدترین سطح کی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔
اخبار انڈیپنڈنٹ کی یہ رپورٹ نامہ نگار ڈونلڈ ماکنٹائر نے تیار کی ہے جسے "غزہ جنگ کا ایک سال اور اسکے منفی اثرات" کا عنوان دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں نامہ نگار لکھتا ہے کہ اس وقت کی اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی نے جنگ شروع ہونے کے 2 ہفتے بعد اپنے ایک بیان میں بڑے فخر سے کہا تھا کہ "انکی فوج جب شہریوں پر گولیاں چلاتی ہے تو یہ بھول جاتی ہے کہ انکے سامنے کون معصوم اور مجرم ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے"۔ زیپی لیونی کے اس بیان سے اسرائیل کے جنگی جنون کی کیفیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کے دوران ہونے والی تباہی اور بربادی اور اس دوران خون خرابہ دور حاضر کی بدترین مثال ہے۔ اس دوران اسرائیل نے رعب اور خوف کی جو فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جن آنکھوں نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا ہے وہ بدترین مناظر کو زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ اسرائیل نے تعلیمی ادارے، ہسپتال، شہریوں کے رہائشی مکانات اور دیگر مقامات پر شہریوں کو نہایت بے دردی سے نشانہ بنایا۔ انڈیپنڈنٹ کے نامہ نگار نے غزہ کے ایک 26 سالہ شہری حلمی سمونی کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ میں جو وحشتناک مناظر لوگوں نے دیکھے انکے اثرات ابھی تک انکی زندگی پر موجود ہیں۔ حلمی سمونی بھی انہیں ہزاروں متاثرہ خاندانوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے گھربار اور عزیزوں کو بدترین جارحیت کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ جنگ کے دوران سمونی نے اپنے والد، والدہ، بیوی اور 2 کم سن اور شیرخوار بچوں کے بمباری کے باعث چیتھڑے ہوتے دیکھا اور ا کا خون دیواروں اور فرش پر دیکھا۔ اب تک وہ اپنے حواس بحال نہیں کر سکا۔ اسکے علاوہ درجنوں اور ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے جنگ سے متاثرہ شہری ایک سال گذرنے کے باوجود معمول کی زندگی کی جانب متوجہ نہیں ہو سکے۔ جنگ کی وہ خوفناک کیفیت اب بھی انہیں حواس باختہ کیے ہوئے ہے۔ رپورٹ میں خاندانوں کے مکمل طور پر شہید ہو جانے اور انکے ایک آدھ بچ جانے والے افراد کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں، اسکے علاوہ انکی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جنگ کے ایک سال کے بعد بھی تباہی اور خون خرابے کی فضا لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ جنگ کی تباہ کاریاں اس قدر شدید اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھیانک تھیں کہ انہیں فراموش کرنے میں مدتیں لگ سکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 16903
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش