اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے ہمسایہ ملک میکسیکو کی حکومت نے تارکین وطن کو لے کر آنے والے امریکی فوجی طیارے کو اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق میکسیکو نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے تارکین وطن کو ملک بدری کے بعد میکسیکو لانے والے امریکی فوجی طیارے کو اترنے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ امریکی حکومت میکسیکو میں سی 17 ٹرانسپورٹ طیارے کی لینڈنگ کے منصوبے پر آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ میکسیکو کے امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، اور امیگریشن جیسے معاملات پر تعاون کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس ہفتے کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ میکسیکو میں رہیں، کے نام سے ایک پروگرام دوبارہ شروع کر رہی ہے، جس کے تحت غیر میکسیکو پناہ گزینوں کو اس وقت تک میکسیکو میں انتظار کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جب تک کہ امریکا میں ان کے مقدمات حل نہیں ہو جاتے۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے بدھ کے روز کہا تھا کہ اس طرح کے اقدام کے لیے پناہ گزینوں کو قبول کرنے والے ملک کو راضی ہونا پڑے گا، اور میکسیکو نے ایسا نہیں کیا ہے۔ امریکا اور میکسیکو کے تعلقات اس وقت سے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جب ٹرمپ نے پیر کے روز اپنی دوسری مدت کا آغاز دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر قومی ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ کیا تھا۔
انہوں نے اب میکسیکو کے ساتھ سرحد پر 1500 اضافی امریکی فوجی تعینات کرنے کا حکم دیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ جلد ہی مزید ہزاروں فوجی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے میکسیکو کے منشیات فروش گروہوں کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے، خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھ دیا ہے، اور فروری سے میکسیکو کی مصنوعات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ شین بام نے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے اور واپس آنے والے میکسیکو کے شہریوں کو جگہ دینے کے لیے کھلے پن کا اظہار کیا ہے۔
لیکن بائیں بازو کی رہنما نے یہ بھی کہا کہ وہ بڑے پیمانے پر ملک بدری سے متفق نہیں ہیں اور یہ کہ میکسیکو کے تارکین وطن امریکی معیشت کے لیے اہم ہیں، ملک بدری کی پروازوں کے لیے امریکی فوجی طیاروں کا استعمال پینٹاگون کی جانب سے پیر کے روز ٹرمپ کے قومی ایمرجنسی کے اعلان پر ردعمل کا حصہ ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کے اقدام کے پیش نظر متعدد تارکین وطن کو گوئٹے مالا بھی بھیجا گیا۔ گوئٹے مالا کے مائیگریشن انسٹی ٹیوٹ نے پہلے کے اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ گوئٹے مالا کے 265 شہری 3 پروازوں کے ذریعے پہنچے، جن میں سے 2 فوجی طیاروں کی پروازیں اور ایک چارٹر فلائٹ تھی۔
گوئٹے مالا کی حکومت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس ہفتے گرفتار کیے گئے تارکین وطن میں سے کوئی بھی جمعے کے روز ملک بدر ہونے والوں میں شامل تھا یا نہیں۔ گوئٹے مالا کے نائب صدر کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ وہ پروازیں ہیں جو ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اڑی ہیں۔ پینٹاگون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے محکمہ دفاع کے دو طیاروں نے امریکا سے گوئٹے مالا کے لیے پروازیں چلائی تھیں۔ صبح وائٹ ہاؤس نے ایکس پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کو ایک فوجی طیارے میں لے جایا جا رہا ہے، جس کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ملک بدری کی پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔