اسلام ٹائمز۔ سینئر صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کو مبینہ طور پر سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کیے جانے کے خلاف اُن کے بیٹے نے تھانہ جی نائن میں درخواست دائر کر دی ہے۔درخواست میں اُن کے بیٹے کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُن کے والد کے اغوا کا واقعہ گذشتہ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ میں پیش آیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جس وقت مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے ہمراہ نجی ٹی وی سے منسلک صحافی ثاقب بشیر بھی موجود تھے جنھیں بعد ازاں اغواکاروں کی جانب سے چھوڑ دیا گیا۔ بیٹے نے بتایا کہ انھیں اپنے والد کے اغوا کی بابت صحافی ثاقب بشیر نے صبح چار بجے کے لگ بھگ بتایا۔
صحافی ثاقب بشیر نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ بدھ کی رات گیارہ بجے کے قریب پمز ہسپتال سے نکل کر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے جب کچھ افراد وہاں پر آئے جنھوں نے ہم دونوں کے چہروں پر کپڑا ڈالا اور زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ ثاقب بشیر نے دعویٰ کیا کہ دس منٹ کی مسافت کے بعد ہم دونوں کو ایک کمرے میں بٹھایا گیا، لیکن کپڑا منہ سے نہیں اتارا گیا۔ اِن افراد نے مجھے (ثاقب) مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں ہے، اس لیے ہم آپ کو کچھ نہیں کہتے۔
ثاقب بشیر نے مزید کہا کہ اغوا کرنے والے افراد نے انھیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا اور دو گھنٹے کے بعد آئی نائن کے قریب ایک ویران جگہ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ثاقب کے مطابق وہ اور مطیع اللہ جان پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مظاہرین کی مبینہ ہلاکتوں کی تصدیق کرنے کے لیے پمز گئے تھے۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ جب ہم دونوں کو اغوا کرکے لے گئے تو ہمیں ایک ہی کمرے میں بیٹھایا گیا اور ہم دونوں سے کوئی بھی سوال نہیں پوچھا گیا۔ اُن کے مطابق کمرے میں جو افراد موجود تھے وہ صرف ہم دونوں سے یہی پوچھتے رہے کہ چائے تو نہیں پینی؟ سردی تو نہیں لگ رہی؟ واش روم تو نہیں جانا؟
انہوں نے کہا کہ جب انھیں چھوڑنے کے لیے گاڑی کی طرف لے کر جا رہے تھے تو اس وقت کمرے میں موجود ایک شخص سے انھوں نے وقت پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس وقت رات کے ڈھائی بج چکے ہیں۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رہے ہیں جبکہ مطیع اللہ جان کی فیملی بھی اسی عدالت سے رجوع کر رہی ہے۔ حکام کی جانب سے فی الحال اس واقعے پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل مطیع اللہ جان کو جولائی 2020ء میں بھی اغوا کیا گیا تھا تاہم انھیں 12 گھنٹوں کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔