اسلام ٹائمز۔ پاراچنار کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اس بحران کی وجہ صرف قبائلیت، فرقہ واریت، تکفیریت یا زمینی تنازعات نہیں بلکہ حکومت کی مجرمانہ نیت ہے جو ان مسائل کا حل نہیں چاہتی، اس جرم میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ریاستی ادارے برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ریاست قبائل کے معاملات کو مرکزیت اور جرگے کی سطح پر حل کرنے، وحدت کے فروغ، زمینی تنازعات کو ضلعی کمیشن کے ذریعے حل کرنے، اور دہشتگرد خوارج کیخلاف فیصلہ کن آپریشن کے ذریعے ان مسائل کو حل کر سکتی ہیں، لیکن متعدد جنگوں میں جانی نقصانات، ظلم و بربریت، اور راستوں کی بندشوں کے باوجود حکومت نے صرف چند عارضی اقدامات کر کے ان مسائل کو ٹالنے کی کوشش کی، یہ حکومت کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے، جس کا مقصد جنگ کے ماحول کو برقرار رکھنا اور اس میں شدت پیدا کرنا ہے۔
علامہ جواد نقوی نے مزید کہا کہ دہشت گرد آزادانہ طور پر کارروائیاں کر رہے ہیں، لیکن حکومت نے علاقے میں فورسز کو تعینات نہیں کیا۔ فوج اور ایف سی موجود ہونے کے باوجود ان کا کردار صرف تماشائی کا بن کر رہ گیا ہے۔ کانوائے کو تحفظ دینے کے وعدے بھی پورے نہیں کیے گئے، اور حملے کے دوران انٹیلیجنس ادارے دن دہاڑے ہونے والی بڑی کارروائیوں سے غافل رہے، جبکہ پولیس حملے کے وقت غائب رہی۔ یہ صورتحال حکومت کی مجرمانہ بدنیتی کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عمومی دہشتگردی ریاست، پولیس، افواج، اور کبھی کبھار عوام کو نشانہ بناتی ہے، لیکن پاراچنار میں ظلم و بربریت کی نوعیت مختلف اور ایک خاص منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ ان مظالم کا مقصد تشیع کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے، کیونکہ تشیع کی موجودہ ترکیب سیاسی اور سماجی طور پر فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ ضیاء الحق کے دور میں بنایا گیا تھا، جب ریاست نے تشیع کے خلاف دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا۔ اس منصوبے کی باقیات آج بھی موجود ہیں اور اب ریاست کے خلاف بھی حملہ آور ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بدستور طاقت کے کھیل، عوام کو گمراہ رکھنے، اور قومی وسائل کو ضائع کرنے میں مصروف ہے، جبکہ ملک کے بیشتر حصے دہشت گردوں، فرقہ وارانہ گروپوں، اور ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ بلوچستان باغیوں کے حوالے، پنجاب ڈاکوؤں کے قبضے میں، اور خیبر پختونخوا دہشت گردوں کے زیر تسلط ہے۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ریاستی ادارے پاراچنار کے بارے میں یہ جھوٹی منطق گھڑتے ہیں کہ وہاں زینبیون موجود ہیں جو شام میں داعش کے خلاف لڑے۔ حالانکہ داعش کے خلاف لڑنا پاکستان کے لیے کسی صورت نقصان دہ نہیں تھا اس کے برعکس ریاست کی سبق سکھانے کی خواہش یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومتی ادارے داعش کے منصوبہ سازوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے مفادات رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت اور ریاستی ادارے تاریخ سے سبق نہیں لیتے اور عوام کو محض سیاسی مقاصد کے لیے گمراہ کرتے رہیں گے، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تاہم، ان شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، اور ان کی قربانیاں ملک میں اتحاد اور غیرت کی نئی لہر کو جنم دیں گی، کیونکہ یہ صرف شیعہ کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور ریاستی ادارے فوری طور پر ہوش کے ناخن لیں، روایتی مذمتی بیانات اور بے حسی کو ترک کریں، اور مؤثر عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ شہداء کے خون کا حق ادا کیا جا سکے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔ ظالموں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے انہیں عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے، آخر میں انہوں نے ظالموں اور قاتلوں کی نابودی کیلئے دعا کی اور امت اسلامیہ سے اپیل کی کہ وہ اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے اس ظلم کیخلاف آواز بلند کریں۔