0
Thursday 25 Jul 2024 16:32

کرائم منسٹر نتن یاہو کیخلاف امریکہ میں احتجاج

اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے امریکی دارالحکومت پہنچتے ہی وہاں اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا، جبکہ واشنگٹن میں متعدد سڑکیں سکیورٹی کے پیش نطر بند کر دی گئیں۔ واضح رہے فلسطینیوں کے قتل میں شریک اپنے سرپرست امریکہ میں اسرائیلی وزیر اعظم دونوں امریکی سیاسی جماعتوں رپبلیکن اور ڈیموکریٹ کی مشترکہ دعوت پر پہنچے تھے، جہاں انہوں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ نتن یاہو کی آمد سے پہلے بھی امریکہ سے مسلسل غزہ کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور نتن یاہو کی آمد کے پہلے دن انہیں اس وقت اسرائیلی جارحیت کے خلاف نعرے بازی کرتے شہریوں کا سامنا کرنا پڑا، جب درجنوں افراد نے واٹر گیٹ ہوٹل کے سامنے بند شاہراہ پر احتجاج شروع کر دیا۔

عالمی میڈیا کے مطابق مظاہرے میں شریک کسینڈرا ہومز کا کہنا تھا کہ میں یہ تسلیم نہیں کر پارہی کہ ایک ایسے شخص کو امریکی حکومت نے مدعو کیا ہے جس کو انٹرنیشنل کورٹ ایک جنگی مجرم قرار دے چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے آدمی کا امریکی دارالحکومت میں استقبال کیا جانا ان کے لیے بطور امریکی شرمندگی کی بات ہے۔ مظاہرے کے شرکا فلسطین کی آزادی کا نعرہ بھی لگاتے رہے۔ ہوٹل واٹر گیٹ کی عمارت امریکی صدر نکسن کے زمانے میں ہونے والے بدنام زمانہ واٹر گیٹ  سکینڈل کی وجہ سے سیاسی طور پر دنیا بھر میں جانی جاتی ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کا قیام اس ہوٹل کو ایک مرتبہ پھر امریکی سیاست کے منظر نامے پر لے آیا ہے۔ ہاتھ میں فلسطین کا جھنڈا اٹھائے وفا جیکسن کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں عالمی عدالتوں کے فیصلے کے بعد نتن یاہو کو امریکہ میں گرفتار کیا جانا چاہیے نا کہ ان کو کانگرس سے خطاب کا موقع دیا جائے۔

ہوٹل کی عمارت کو چاروں طرف سے سخت سرکاری سکیورٹی کے حصار میں رکھا گیا تھا لیکن مظاہرین کئی گھنٹوں تک سائرن بجاتے رہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی اس دورے کے دوران صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں نتن یاہو اپنے مختصر قیام کے دوران امریکی عوام میں اپنی غیر مقبولیت کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم اس دوران انہیں درجنوں ایسی تنظیموں اور لاکھوں ایسے افراد کی جانب سے احتجاج کا سامنا رہے گا جو انہیں مشروع وسطیٰ میں بدامنی خاص طور پر فلسطینی عوام کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اپنا احتجاج کر رہے ہیں۔ مظہارین نے بینرز اور پلے کارڈز پر نسل کشی کیخلاف احتجاجی نعرے لکھ رکھے تھے۔ سڑکوں پر مظاہرین نے نتن یاہو کی تصاویر کو لال رنگ لگا کر فلسطین میں خون کی ہولی کھیلنے کا الزام عائد کیا۔مظاہرین نے نتن یاہو کی تصاویر کو جلائی ۔اس دوران نیتن یاہو نے مظاہرین کو ’ایران کے بیوقوف‘ قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی۔

مظاہرین نے امریکی پرچم بھی نذر آتش کئے اور اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران  پولیس اور  مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے واقعات بھی پیش آئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران کئی افراد کو گرفتار کیا گیا اور پولیس نے واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں پر مظاہرین پر کالی مرچ کے اسپرے کا استعمال کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا امریکی کانگریس سے خطاب کانگریس کے کئی ارکان کے بائیکاٹ اور فلسطین حامی مظاہروں کی نذر ہو گیا۔ مظاہرے کا اہتمام 20 سے زائد تنظیموں نے کیا تھا جن میں امریکن مسلمز برائے فلسطین، فلسطین یوتھ موومنٹ، یو ایس فلسطینی کمیونٹی، کووڈ پنک، رائٹرز اگینسٹ وار، جیوز فار پیس اور بین الاقوامی صہونیت مخالف نیٹ ورک شامل ہیں جب کہ مظاہرے سے خطاب کرنے کے لیے معروف امریکی اداکارہ سوزن سرینڈن بھی موقعے پر موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں امن کے بغیر دنیا بھر میں امن قائم کرنا ناممکن ہے۔

مظاہرے میں شریک ایک خاتون سیلینا میئرز کا کہنا تھا کہ وہ فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی چاہتی ہیں اور اسی لیے وہ مظاہرے میں شرکت کے لیے پنسلوینیا سے آئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور یہودی یہی سمجھتی ہیں کہ امریکی حکومت کو اسرائیلی حکومت کو دی جانے والی ہر قسم کی جنگی امداد فوری طور پر روکنی چاہیے کیونکہ یہ اسلحہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مظاہرے میں شریک پاکستانی نژاد امریکی زاہد صدیقی نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکی ریاست کنیکٹیکٹ سے صرف مظاہرے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں نتن یاہو کو امریکہ مدعو کرنا انسانی ہمدردی رکھنے والے افراد کے لیے بہت مایوس کن ہے۔ جنگ بندی تک مظاہرے جاری رکھے جائیں گے۔

مظاہرے میں وزیراعظم نتن یاہو کے بڑے بڑے کٹ آؤٹس بھی لگائے گئے تھے، جن کے سامنے فلسطینی شہریوں کے علامتی تابوت رکھے گئے تھے۔ اسی مجمعے میں وہ یہودی گروپ بھی فلسطین کے حق میں پوسٹرز لیے کھڑے تھے جو اسرائیلی حکومت کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ ہزاروں افراد اس وقت تک تن یاہو کے خلاف اور عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت ان کی گرفتاری کا نعرہ لگاتے رہے، جب تک اسرائیلی وزیراعظم نے 100 کے قریب کانگریس مین اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بائیکاٹ کے باجود اپنا خطاب مکمل نہیں کر لیا۔
خبر کا کوڈ : 1149900
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش