0
Friday 17 Jan 2025 13:26

غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے

غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

سولہ جنوری کو تقریباً پندرہ ماہ کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی جنگ بندی کا معاہدہ ترتیب پا چکا ہے اور اب دونوں فریق اس معاہدے کے مسودے پر رضامند بھی ہیں۔ البتہ اس معاہدے کی تفصیلات ابھی آنا باقی ہیں، لیکن جو ابتدائی معلومات ہیں، ان کے مطابق یہ معاہدہ تین مرحلوں میں انجام پذیر ہوگا، جس کا پہلا مرحلہ اتوار انیس جنوری کو شروع ہو کر آئندہ بیالیس دن تک جاری رہے گا۔ ان بیالیس دنوں میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا جبکہ غزہ میں مکمل جنگ بندی یعنی دونوں اطراف سے کسی قسم کی کوئی عسکری کارروائی انجام نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ساتھ غزہ کے علاقوں سے مرحلہ وار اسرائیلی غاصب فوج بھی باہر نکل جائے گی۔

بہرحال یہ معاہدہ انجام پذیر ہوچکا ہے اور اس معاہدے کے عنوان سے پاکستان سمیت کچھ اور ممالک میں سیاسی تجزیہ نگار کہ جن کا جھکائو ہمیشہ امریکی سیاست یا امریکہ کی جانب رہا ہے، وہ سب اس بات پر بغلیں بجانے میں مصروف عمل ہیں کہ امریکی نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی سیاست سے مرعوب ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا اصل چیمپئن امریکی حکومت یعنی موجودہ صدر بائیڈن اور آنے والا صدر ٹرمپ ہے۔ یہ تجزیہ بالکل حقائق کے منافی ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ جو کہ سات اکتوبر 2023ء میں شروع ہوئی تھی، پندرہ ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سمیت امریکہ اور ان تمام مغربی حکومتوں کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے کہ جو غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ حماس کو غزہ سے مکمل ختم کرنے کی بات کر رہے تھے۔

پندرہ ماہ گزرنے کے بعد گذشتہ دو ماہ میں غزہ میں بڑھتی ہوئے مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسماعیل ھانیہ اور یحییٰ سنوار جیسے قائدین کی شہادت کے بعد بھی حماس غزہ میں بھرپور مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماس کے پاس 94 اسرائیلی قیدی بھی موجود ہیں، جن کو پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر طاقت اور ٹیکنالوجی تلاش کرنے اور بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ غزہ کی حمایت میں آٹھ اکتوبر سنہ 2023ء میں جنوبی لبنان کی سرحدوں پر کھلنے والا محاذ آج سے پچاس دن قبل اس لئے جنگ بندی کی طرف چلا گیا، کیونکہ یہاں بھی اسرائیل مسلسل شکست پذیر ہوا اور نہ ہی حزب اللہ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان لاکھوں صیہونی آبادکاروں کو شمال فلسطین میں واپس لانے کی کامیابی حاصل ہوئی، جن کو حزب اللہ نے اپنی کارروائیوں کے ذریعے شمال فلسطین سے نکال باہر کیا تھا۔

یہ صیہونی آبادکار تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں آ پائے ہیں، کیونکہ حزب اللہ کے شہید رہنماء سید حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ گھر سے بے گھر ہوں گے تو صیہونی آبادکاروں کو بھی گھروں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ جنوبی لبنان کے محاذ پر شکست ایک اور بڑی وجہ ہے، جس نے امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کریں اور حماس کی شرائط کو تسلیم کریں۔ ایک اور حقیقت جس کو امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگاروں نے نظر انداز کیا ہے، وہ یمن ہے۔ یمن نے سات اکتوبر کے بعد سے اعلان کیا تھا کہ غزہ کی حمایت کے لئے بحیرہ احمر کے راستوں کو امریکہ اور اسرائیل سمیت برطانوی اور ہر اس ملک کے بحری جہازوں کے لئے بند کر دیا جائے گا، جو غزہ جارحیت میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔

یمن نے پندرہ ماہ سے بحیرہ احمر کے راستوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور بحری بیڑوں کے ساتھ بھی نبرد آزما ہے۔ اسی طرح یمن مسلسل غزہ کی حمایت میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم مراکز تل ابیب، ایلات اور دیگر مقامات پر اپنے جدید ترین میزائلوں اور ڈرون کی مدد سے کامیابی سے نشانہ بنا رہا ہے۔ حال ہی میں تل ابیب میں موجود وزارت جنگ کی ایک اہم عمارت کو یمن کے ہائپر سانک میزائلوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے جدید ترین ایم کیو نائن ڈرون بھی درجن بھر سے زیادہ مار گرائے ہیں، ایک جنگی جہاز ایف اٹھارہ بھی مار گرایا تھا۔ یمن کی بے مثال مزاحمت نے امریکہ اور برطانیہ سمیت اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔

ایک حقیقت عراق کی مزاحمت ہے کہ جس نے مسلسل غاصب صیہونی حکومت کے اہم مقامات کو اپنے میزائلوں اور ڈرون کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ایران کا اہم کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس نے دو مرتبہ وعدہ صادق نامی آپریشن لانچ کئے اور براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم فوجی اور جنگی مراکز کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ ان تمام واقعات نے جنگ کی صورتحال کو غزہ کے حق میں اور حماس کے حق میں بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس بات کا اظہار خود حماس کی قیادت نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کیا ہے۔ حماس کے رہنماء خلیل الحیہ نے ایران، عراق، لبنان، یمن کی مزاحمت کا زبردست انداز میں شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ یہی وہ مزاحمت ہے، جس نے حماس کی مزاحمت کو مضبوط کیا اور غاصب صیہونی حکومت کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔

ایک اور حقیقت جسے امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگار فراموش کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ خود غزہ میں گذشتہ چند ماہ میں ہونے والی بے مثال مزاحمتی کارروائیاں ہیں، جن کے بارے میں خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج ان مزاحمتی کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ چند ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں نے جنگ کے رخ کو بدلنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حماس کی اس قوت اور مضبوطی کا ذکر خود امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی کرنا پڑا۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ اگر کچھ تجزیہ نگاروں کی بات کو مان لیا جائے کہ امریکی حکومت بہت طاقتور ہے، اسرائیل کے پاس بے پناہ طاقت اور ٹیکنالوجی ہے اور نہ جانے بہت کچھ تو پھر سوال تو بہت سے اٹھتے ہیں، لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگر کوئی طاقتور ہو اور دنیا کی تمام تر ٹیکنالوجی اور قوت سے لیس ہو تو پھر وہ جنگ بندی کا معاہد ہ کیوں کرے گا۔؟ آخر اس دنیا کی طاقت کو لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟

اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے، یعنی مزاحمت ہے جس نے ان تمام طاقتوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ کریں، ورنہ اگر ان کی قدرت ہوتی تو وہ جنگ بندی نہیں بلکہ فتح کا اعلان کرتے۔ لہذا اب چونکہ جنگ بندی ہوئی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ غزہ اور مزاحمت کی کامیابی ہے کہ جس نے دنیا کی پوری طاقت کو اپنے سامنے جھکا دیا اور معاہدے پر مجبور کر دیا، یہ سب کچھ نہ تو بائیڈن کی سیاسی حکمت عملی ہے اور نہ ہی جوکر نما نئے امریکی صدر ٹرمپ کا کمال ہے، اگر کسی کا کمال ہے تو صرف اور صرف اسلامی مزاحمت ہے، جس کا مرکز و محور فلسطین اور اس کے ساتھی و مددگار ایران، حشد الشعبی عراق، حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن ہیں۔ لہذا غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے۔
خبر کا کوڈ : 1184955
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش