تحریر: نذر حافی
تین اطراف سے افغانستان سے متصل ضلع کرّم ابھی تک طالبان کے محاصرے میں ہے۔ گرینڈ جرگہ اور ریاست کی بے بسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ شبہات بھی جنم لے رہے ہیں کہ کہیں ریاست اور گرینڈ جرگہ دونوں ہی ناکام تو نہیں ہوگئے۔ اس مسئلے کو لے کر پارلیمنٹ میں تقاریر بھی ہوئیں اور سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ چلے، لیکن جو نہیں ہونا تھا، وہ نہیں ہوا۔ بہرحال کچے کے ڈاکو ہوں یا بگن کے دہشت گرد، حل تو ریاست کو ہی تلاش کرنا ہے۔ ایک مرتبہ پھر 35 گاڑیوں کا کانوائے جیسے ہی ٹل سے بگن میں داخل ہُوا تو مختلف قسم کے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے اسے نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق کچھ گاڑیاں ہتھیاروں سے تباہ کر دی گئیں اور کچھ کو حملہ آوروں نے خود ہی لوٹنے کے بعد نذرِ آتش کر دیا، حملے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم 35 ٹرکوں میں سے صرف دو ٹرک واپس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ باقی ٹرکوں سے اربوں کی مالیت کا سامان لوٹنے کے بعد انہیں نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اطلاعات ہیں کہ تازہ حملے میں دس سے زائد افراد لاپتہ، تقریباً اتنے ہی زخمی جبکہ 2 سرکاری اہلکاروں سمیت 6 ڈرائیور شہید ہوگئے۔ ایک طرف کانوائے پر حملے ریاست کیلئے ایک سنگین چیلنج کے طور پر اُبھرے ہیں جبکہ دوسری طرف حملہ آور لوٹنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کو متہم بھی کرتے ہیں کہ ٹرکوں کی لوٹ مار یہ سب سرکاری کارندے خود کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پارہ چنار میں محصور لاکھوں افراد بھی ریاستی اداروں کی طرف سے کی جانے والی جوابی کارروائیوں سے مطمئمن نہیں۔ ریاستی ادارے اس وقت اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو بگن میں موجودہ لوٹے جانے والے کانوائے کا مالِ مسروقہ ہی برآمد کرنے کی ٹھان لیں تو پھر بھی اس سے ریاست کی ساکھ اور رِٹ کو پہنچنے والے نقصان کا کافی حد تک ازالہ ممکن ہے۔
ایسا ہی بلوچستان میں بھی ہو رہا ہے۔ عوام کے اندر جا بجا ریاستی اداروں کے خلاف نفرت بھری جا رہی ہے۔ حتی کہ جو زائرین کوئٹہ سے تفتان تک بغیر کانوائے کے سفر کرتے ہیں، ان سے ٹرانسپورٹرز ڈبل کرایہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایف سی والوں کا بھتہ ہے۔ مسافر گاڑیوں میں کوئٹہ سے تفتان آتے اور جاتے ہوئے اسمگلنگ معمول کی بات ہے۔ چیک پوسٹیں صرف مسافروں کی کھینچا تانی تک محدود ہیں۔ کوئی بھی مسافر بس اسمگلنگ کے سامان کے بغیر ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ پھر اُن بسوں میں بھی یہی تبلیغ ہوتی رہتی ہے کہ یہ ادارے بڑے چوروں کو تو پکڑتے نہیں، ویسے ہی ڈرائیورز کو تنگ کرتے ہیں۔ پاکستان ہاوس میں بھی سکیورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں۔ جب مسافروں کو سوار کرنے کیلئے بسیں پاکستان ہاوس میں داخل ہوتی ہیں تو وہ پہلے ہی اسمگلنگ کے سامان سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔
ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کہتے ہیں کہ اگر یہ سامان نہ ہو تو ہمیں گاڑی لے جانے کا فائدہ ہی نہیں۔ متعلقہ اداروں کو یہ سلسلہ فوری طور پر روکنا چاہیئے۔ اس سامان میں چھپا کر کچھ بھی پاکستان ہاوس میں داخل کیا جا سکتا ہے اور اس سے بھی کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اگرچہ انسانی زندگی کی حفاظت سکیورٹی اداروں کی پہلی ترجیح ہے، تاہم اس سے غفلت کے مقامات اور مواقع کو پہچاننا بھی اداروں کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔ لوگ یہ سب دیکھتے ہیں اور سفر کرتے رہتے ہیں۔ بارڈر پر جب امیگریشن کے عملے اور بارڈرز پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کے منفی رویوں کا عام عوام مشاہدہ کرتے ہیں تو اس سے ان کی حیرانگی اور تعجب میں ہرگز اضافہ نہیں ہوتا۔ مفاد پرست عناصر ایسی صورتحال سے مسلسل فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور آخر میں اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کوئی افسوسناک کاروائی کرکے ملک بھر کی توجہ فرقہ وارانہ فسادات کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
پورے پاکستان میں عوام ایک طرف سے ریاستی غفلت اور دوسری طرف سے دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس کے شکار ہیں۔ ہماری دانست میں پارہ چنار جانے والے کانوائے کا جو مال لوٹا گیا، اُس کی برآمدگی اور جو لوگ و بچے پارہ چنار میں بھوک و پیاس سے بلک بلک کر شہید ہو رہے ہیں، ان کا قصاص لینا ریاست پر واجب ہے۔ وہ بگن کے دہشت گرد ہوں ہو یا کچے کے ڈاکو! مسافروں کا قتل، مسافر گاڑیوں کی لوٹ مار، خونریز فسادات، نفرت انگیز تقاریر، دہشت گردی کی کارروائیاں اور فرقہ وارانہ تشدد یہ سب اکیلے ریاست نہیں روک سکتی۔ اسے روکنے کیلئے ارباب حل و عقد کو ریاست اور عوام کو ایک پیج پر لانا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں ریاست جائے تو کہاں جائے؟ اس سوال کا سادہ اور آسان جواب یہی ہے کہ ریاست سیدھی عوام کے پاس جائے، اپنے بچوں کے پاس جائے۔ ریاست کے بیٹے ہی اُس کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے طالبان اور داعش کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے اہالیانِ پارہ چنار نے آج تک ہر قدم پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اس ریاست کے سچے اور حقیقی بیٹے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی دامن پر سانحہ اے پی ایس کے بچوں یا پاکستان کے اسّی ہزار شہداء کے خون کا کوئی دھبّہ نہیں۔ بے شک پاکستانی ہونے پر ہم سب کو فخر ہے، لیکن اہالیانِ پارہ چنار وہ ہیں کہ جن کی حُب الوطنی پر سارے پاکستان کو فخر ہے۔