0
Saturday 22 Jun 2024 15:00

فتح قریب ہے

فتح قریب ہے
تحریر: عبدالباری عطوان

عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے علاقائی اخبار "رائے الیوم" کے اداریئے میں لکھا ہے کہ  لبنانی حزب اللہ کے دو ڈرونز کی آمد کے بعد "حیفا" میں خطرے کے سائرن بج گئے۔ اس وجہ سے مقبوضہ شہر میں پناہ گزین اسرائیلی آباد کاروں کو ایک انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ اس اقدام نے حالیہ صورتحال کو مزید خطرناک کر دیا ہے۔ کیونکہ ڈرونز کی اس  نمائش سے مقبوضہ فلسطین کا جنوب (غزہ) ہو یا اس کے شمال میں الجلیل  کا علاقہ، اب حزب اللہ سے محفوظ نہیں ہے۔ اب صیہونی حکومت کے لیے ان نتائج کو برداشت کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جنوبی لبنان سے حیفہ تک حزب اللہ کے دو ڈرونوں کی پرواز ساتھ ساتھ تین اہم پیش رفتیں سامنے آئی ہیں:
حزب اللہ کا فضائی دفاع چند روز قبل لبنان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے جدید اسرائیلی ڈرون "ہرمیس 900" کو مار گرانے میں کامیاب رہا۔
اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ نے منگل کے دن مقبوضہ گولان میں اسرائیلی فوجی اڈوں اور قصبے "کیسرمین" پر بمباری کرنے کے لیے 50 راکٹ فائر کیے، جس کی وجہ سے بڑی آگ بھڑک اٹھی۔
حزب اللہ کے فضائی دفاعی یونٹ نے انکشاف کیا کہ اس کے پاس ایسے جدید میزائل ہیں، جو اسرائیل کے فکسڈ ونگ طیاروں جیسے "F-16" اور "F-15" کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور انہیں لبنان کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔

اس محاذ پر کشیدگی میں اضافہ تین سمندروں بحیرہ احمر، بحیرہ روم اور بحر ہند میں امریکی اور اسرائیلی بحری جہازوں پر یمنی حملوں میں اضافے کے ساتھ ہی ہوا ہے، جو کہ متحدہ مقاومت کی موجودہ صورتحال کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ قوتیں، جو "پاگل پن" کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، وہ غزہ  پٹی میں "جنگ بندی" کی مخالف ہیں، تاکہ یہ جنگ حزب اللہ کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ وہ اسرائیلی فوج کے لبنان پر ہر قسم کے حملے کا سوچ رہے ہیں، لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ حیفہ کی طرف ڈرونز کا حملہ اور اسرائیل کے دفاعی نظام میں گھسنے میں حزب اللہ کی کامیابی،(جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بہت ترقی یافتہ ہیں) اسرائیل کے عسکری اور سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک دھمکی آمیز پیغام ہے اور اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ شہر اور دیگر مقبوضہ فلسطینی شہر حزب اللہ کی زد میں ہیں۔ لبنان کی سرزمین پر جنگ اور جارحیت کا مطلب ان مقبوضہ شہروں کی مکمل تباہی ہے۔

حزب اللہ کی مزاحمت اسرائیل کے خلاف اپنے میزائلوں کا استعمال کرتی رہی ہے، ان کے پاس ہتھیاروں کی بڑی تعداد موجود ہے اور اسرائیل کے اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس دو لاکھ سے زیادہ میزائل ہیں۔ شاید نیتن یاہو کی لبنان کو پتھر کے زمانے میں لوٹانے کی دھمکیوں پر عمل کرنے میں ناکامی کی وجہ لبنان کی اسلامی مزاحمت کے ردعمل کی شدت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو اپنے وجود کو لاحق خطرے سے آگاہ ہے۔ لبنان کی اسلامی مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں اسرائیل کو سخت مسائل سے دوچار کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اب تک 200,000 سے زیادہ صیہونی آباد کاروں کو مقبوضہ گلیل سے دور دراز علاقوں کی طرف منتقل ہونا پڑا ہے۔ لبنان کی طرف سے یہ جنگ اس وقت تک نہیں روکی جا سکتی، جب تک غزہ کی پٹی میں نسل کشی کی جنگ بند نہیں کی جاتی۔

اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ "انتھونی بلنکن" کا مشرق وسطیٰ کے خطے کا آٹھواں دورہ عرب ممالک بالخصوص مصر اور قطر کی ثالثی سے غزہ میں جنگ بندی کے حصول کی امید میں کیا گیا ہے۔ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کا اجراء، جس کی امریکا نے مخالفت نہیں کی، کبھی بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا اور اسے اقوام متحدہ کے آرکائیو میں رکھا جائے گا، جو اسی طرح کی درجنوں قراردادوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس دعوے کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت اگرچہ اس کا خیرمقدم کرچکی ہے، لیکن اس طرح کی قراردادوں سے بیوقوف نہیں بنے گی اور دوحہ اور قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کے لیے امریکی حمایت پر یقین نہیں رکھتی۔

خاص طور پر یہ کہ صدر بائیڈن ثالث ہیں، بائیڈن نے عربوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ مزاحمتی رہنماؤں (حماس اور اسلامی جہاد) پر اسرائیل کی شرائط ماننے کے لیے دباؤ ڈالیں اور اگر وہ ان شرائط سے متفق نہیں ہوتے تو قطر ان کے رہنماؤں کو ملک بدر کر دے گا۔ غزہ میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ "النصیرات" کے قتل عام کے بعد، جس کا ارتکاب صہیونی فوج نے گزشتہ ہفتے کے روز کیا، جس کے دوران وہ ایک ڈرامائی کارروائی میں 4 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کارروائی اور جنگی جرم میں 300 سے زائد فلسطینی شہید اور 700 زخمی ہوئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قاہرہ اور دوحہ کے درمیان مذاکرات کی کوشش، جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے، منہدم ہوگئی ہے ۔صیہونی منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے میں امریکہ اور اس کی جاسوسی ایجنسیوں کی ناکامی اب تشت از بام ہو رہی ہے۔

حیفہ میں حزب اللہ کے ڈرونز کی دراندازی اور شام میں مقبوضہ گولان کی بستیوں پر درجنوں میزائل داغنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ غزہ میں مزاحمتی گھات میں اسرائیلی فوجیوں کا محصور ہونا، اسرائیل کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی شدت اور اس کی ہنگامی جنگی کونسل کا خاتمہ، یہ وہ تمام نشانیاں ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس قابض حکومت کا خاتمہ اور مزاحمت کی حتمی فتح قریب ہے۔ ہم نہیں مانتے کہ یہ حقائق غزہ پٹی میں مزاحمت کے ان فیلڈ کمانڈروں سے پوشیدہ ہیں، جنہوں نے طوفان الاقصی کی صورت میں فلسطینیوں کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
خبر کا کوڈ : 1143523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش