تحریر: سید تنویر حیدر
اے باعثِ تخلیق کائنات! اے فخرِ کلِ موجودات! اے ہمارے خانہء دل میں روشن نور کی مشکوٰۃ! آج آپ کا روز میلادِ سعید ہے۔ اس مبارک موقعے پر آپ کی بارگاہِ اقدس سے اذنِ گویائی پانے کے بعد، آپ کے حرمِ نبوی کی طرف رخ کرکے، آپ سے کچھ اپنا حالِ دل بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اے سید الانبیاء (ص)! اے دلوں کی سلطنت کے والی! اے شکستہ دلوں کی فریاد سننے والے! میں اپنے پہلو میں ایک دلِ فگار لیے بیٹھا ہوں۔ میرے کوزہء دل میں جذبات کا ایک بیکراں سمندر سمویا ہوا ہے۔ میرے نہاں خانہء دل میں میری نادیدہ تمنائیں نوکِ زباں تک آنے کی رسائی مانگتی ہیں۔ اے مرے عقدہ کشا! آج میں حوصلہ کرکے اپنے دل کی کرچیاں آپ کے سامنے رکھ کر اپنے دلِ ناتواں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔
اے سید لولاک! (ص) میں آپ سے کیا عرض کروں؟ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر زبان دل کی رفیق نہیں ہے۔ میرا یہ دردِ دل محض میرا نہیں بلکہ سارے گلستاں کا ہے۔ اے رسول خدا! آج زمانے کے تمام صیاد، جن کی آستینوں میں بجلیاں ہیں، جن کے ہونٹوں پر خون بسمل ہے، جن کے سروں میں غارت گری کا سودا ہے، جن کی آنکھوں میں طاقت کا نشہ ہے، جو آتش و آھن سے لیس ہیں اور جو اپنی کبریائی کے زعم میں ستم کی ہر حد کو پار کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا پنجہء خونچکاں اب ہر گلِ تر تک پہنچے اور وہ گلشن کے ہر آشیانے کو ہوا میں بکھیر کر رکھ دیں۔
اے آقا و مولا! آج آپ کی امت پر بہت کڑا وقت ہے۔ آج آپ کے تمام دشمن باہم مل کر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ملت کے ناتواں بدن پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ اے محبوب کبریا! اس گلشن کے برگ و گل سے تارِ آشیاں تک اور بلبل بیتاب سے باغ و باغباں تک، ہر خشک و تر کی نگہداری کے لیے آپ بارگاہ ایزدی میں ہماری طرف سے یہ التجا کیجیے کہ وہ اپنی جناب سے اپنی آخری حجت اور اپنے گلشن کے حقیقی وارث کو جلدی اذنِ ظہور دے، تاکہ وہ اس اجڑے ہوئے گلستاں کی رنگینی کو واپس لوٹائے اور زمانے کے ہر صیاد اور ہر گلچیں سے، گلشن کے ہر بسمل کے خون کے ایک ایک قطرے اور صحن گلشن سے نوچے گئے ایک ایک برگ و گل کا حساب لے۔