0
Monday 24 Jun 2024 05:32
(سید ابراہیم رئیسی ؒ)

محبوب ترین صدر(3)

محبوب ترین صدر(3)
تحریر: مقدر عباس

ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ خبر ملی کہ انسپکشن کمیٹی کے ایک رکن کو محکمہ صحت کی رپورٹ کی تیاری میں زد و کوب کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوا ہے۔ سید رئیسی نے فوراً وزیر صحت سے رابطہ کیا اور انہیں طلب کیا۔ ان سے وضاحت طلب کی اور انہیں اپنے ادارے کے سٹیٹس سے آگاہ کیا۔ وزیر نے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا کوئی عمل تکرار نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ جب سپریم لیڈر کی جانب سے معاشی بدعنوانی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا۔ اس کے بعد شھید رئیسی نے مسلسل تین سال تک نمائش کا انعقاد کیا اور ملک کے تمام انتظامی نظام کو دکھایا۔ انہوں نے اسے ملک کے "انتظامی ڈھانچے کے نقائص کی شناخت" کا نام دیا۔ ہر وزارت کو ایک بڑے ہال میں دکھایا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود وزیر کو مدعو کیا کہ وہ اپنی وزارت کو معائنہ کرنے والے ادارے کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔

تمام سینیئر اور اسٹنٹس اور سینیئر ماہرین نمائش دیکھنے آئے۔ سب نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ معائنہ کرنے والی تنظیم اداروں اور وزارتوں کو اتنی گہری نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی معائنہ کرنے والی تنظیم کے بارے میں بہت سے لوگوں کا نظریہ بدل گیا۔ وہ سمجھ گئے کہ معائنہ کرنے والی تنظیم کسی گرفتاری کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ وہ غلطی کی نشاندہی کر رہی ہے، تاکہ وہ اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرسکیں۔ مولا علی علیہ السلام نے جناب مالک اشتر (رض) کو نصیحت فرمائی کہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں پر نگرانی رکھو۔ ایسا نہ ہو وہ تمہارے نزدیک ہونے کا غلط فائدہ اٹھائیں۔ عوام اور رعایا کے حق میں ظلم و کرپشن کا ارتکاب کریں۔ سید ابراہیم رئیسی اپنے زیر انتظام ادارے میں ہونے والی بدعنوانی کے بارے میں بہت حساس تھے۔ ان کا انتظامی انداز ایسا تھا کہ ادارے کے اندر نگرانی کے لیے ایک شعبہ فعال کر دیا۔

انقلاب کے آغاز میں، انقلاب کے ججوں اور پراسیکیوٹرز کی ٹھوس اور غیر محسوس نگرانی کے لیے ایک خاص طریقہ کار فراہم کیا گیا تھا۔ انسپکشن ادارے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے داخلی نگرانی کے عنوان سے ایک گروپ بنایا۔ اس اختراعی کام کو بعد میں سپریم لیڈر نے بھی سراہا۔ جب عدلیہ کے پہلے نائب کے عہدے پر فائز ہوئے، انہوں نے عدلیہ کے منصوبوں اور ہدایات کی نگرانی کے لیے جنرل آفس قائم کیا۔ انسپکشن ادارے کو سپریم لیڈر کی تاکید تھی کہ اپنے منتخب مامورین پر نظر رکھیں۔ مسلسل نگرانی کریں۔ ان سے غفلت مت برتیں۔ جس طرح رات کے وقت پہرے دار مسلسل اپنی سرچ لائٹس کو گھماتے رہتے ہیں اور ہر کونے کھدرے پر ان کی مسلسل نگاہ ہوتی ہے۔ اسی طرح منتظم کو ہر چیز پر نظر رکھنی چاہیئے؛ لہذا اپنے کارکنان کے کاموں کو نظر انداز نہ کریں۔ دیکھتے رہیں وہ کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ درست کام انجام دے رہے ہیں یا غلط۔ اپنے امور میں کوئی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے۔

مالک اشتر کو نصیحت تھی کہ اپنے عہدیداروں کے کاموں کو بھالتے رہنا اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر چھوڑ دینا، کیونکہ خفیہ طور پر ان کے امور کی نگرانی انہیں امانت کے برتنے اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا باعث ہوگی۔ سید رئیسی جب انسپکشن ادارے کے سربراہ تھے، اس وقت پھر ایک نمائش کا انعقاد کیا۔ صرف مرکزی سربراہان کو وزٹ کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ نمائش فقط خاص منصب پر فائز عہدیداروں کے لئے تھی اور باقی لوگوں سے اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ اس وقت کے صدر جناب ہاشمی رفسنجانی جب نمائش دیکھنے آئے تو کہا! میں خسارے میں رہا کہ آج دوسرے دن آیا ہوں۔ کاش میں پہلے دن آتا اور وزٹ کرتا" سید ابراہیم رئیسی نے ملک کے کرپٹ عناصر کی اصلاح کی کوشش کی، لیکن ہونا تو یہ چاہیئے کہ اس کام کا آغاز (ایگزیکٹو برانچ) یعنی صدر اور اس کی کابینہ ہو۔

عوام سے رابطہ ایک منتخب عوامی نمائندے کے لئے ضروری امر ہے۔ مکّہ کے گورنر کو مولا علی علیہ السلام کی نصیحت تھی: "دیکھو لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لئے تُمہاری زبان کے سوا کوئی سفیر نہیں ہونا چاہیئے اور تمہارے چہرے کے سوا کوئی تمہارا دربان نہیں ہونا چاہیئے اور کسی ضرورت مند کو اپنی ملاقات سے محروم نہ کرنا، اس لئے کہ پہلی دفعہ اگر حاجت تمہارے دروازوں سے ناکام واپس کر دی گئی تو بعد میں اسے پورا کر دینے سے بھی تمہاری تعریف نہیں ہوگی۔" بہت سارے ملکی سربراہ ایک جمہوری عمل سے گزر کر منتخب تو ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا عوام سے رابطہ یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا پھر بہت ہی کم ہوتا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی حقیقی معنوں میں ایک عوامی نمائندے تھے۔ دور افتادہ ایک دیہات کے وزٹ پر جب عوام کے رش میں ڈرائیور گاڑی نہیں روک رہا تھا اور لوگ صدر سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ سید رئیسی نے ڈرائیور کو نہایت سختی سے کہا کہ لوگوں کو بات کرنے دو اور اگر آئندہ ایسا کام کیا تو میں خود گاڑی ڈرائیو کروں گا۔ ہم یہاں انہی لوگوں کے لئے آئے ہیں۔ ان کو تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔

بعض اوقات جب حفاظتی ٹیم انہیں کہتی کہ عوامی اجتماع میں گاڑی سے نکلتے ہوئے احتیاط کیا کریں تو کہتے تھے کہ میری جان سے زیادہ میری عوام مجھے عزیز ہے۔ ہفتے میں منگل کا دن عوام سے ملاقات کے لئے مخصوص تھا۔ عوامی بیٹھک ہوتی۔ رات تک بیٹھتے، تاکہ لوگ آئیں اور اپنی مشکلات اور مسائل کو بیان کریں۔ بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ لوگوں کے مسائل کو سنتے اور یقین دلاتے کہ ان شاء اللہ مسائل حل ہوں گے۔ باقی دنوں میں لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے فالو اپ بھی کرتے تھے۔ سینکڑوں لوگوں کے مسائل دن بھر سنتے اور کھلے دل سے عوام مسائل بیان کرتے اور وہ خنداں پیشانی سے برتاؤ کرتے۔ مولا علی علیہ السلام اپنے عہدیداروں کو عدالت کے قیام کی تاکید کیا کرتے تھے۔ وہ قوم جو طاقتور سے کمزوروں کا حق کھلے عام اور بے خوف و خطر نہ لے سکے، کبھی سعادت مند نہیں ہوسکتی۔ آج کی دنیا عدالت کے قیام کے لئے تشنہ ہے۔ لوگ ملکی اور بین الاقوامی مسائل میں عدل اور انصاف کے طلبگار ہیں۔

عوامی ملاقات تھی، لوگوں نے شھید رئیسی کو اطلاع دی! انسپیکشن ادارے کے انسپکٹر کی غلط رپورٹ کی وجہ سے ایک ایجوکیشن منیجر کو بغیر کسی جرم کے برطرف کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو فالو اپ کیا، جب تک واضح نہ ہوا۔ معلوم ہوا کہ ایجوکیشن منیجر حق پر تھا اور اسے ناجائز عہدے سے برطرف کیا گیا ہے۔ انہوں نے انسپیکٹر کو عہدے سے ہٹا دیا اور تعلیم کے منیجر کو عہدے پر بحال کر دیا۔ سید ابراہیم رئیسی جس منصب پر بھی ہوتے، ان کا ہمیشہ یہی رویہ رہا۔ چاہے انسپکشن کا ادارہ ہو یا ملک کے اٹارنی جنرل کا منصب یا پھر چیف جسٹس کے نائب ہونے عہدہ۔ وہ حق دار کو اس کا حق دلوا کر رہتے۔ رسولِ خدا ﷺ کا فرمان ہے، اگر کوئی بھی بغیر علم کے کسی کام کو انجام دے گا، وہ درست کرنے کی بجائے زیادہ خراب کرے گا۔ دین اسلام نے آغاز ہی سے علم و دانش کی اہمیّت کو بیان کیا ہے۔

جہاں اسلام میں شریعت کے مختلف احکامات صادر ہوئے ہیں، وہیں پر علم کو بھی ہر مومن مرد اور عورت کے لئے فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ علم کے حصول کے لئے دور دراز کے سفر کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ یہ اسی لئے ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی امنگوں اور آرزوؤں کو بغیر علم کے پورا نہیں کرسکتا۔ علم ہی ہے، جو رستے کو نورانی کرتا ہے اور انسان ترقی کی منازل کو طے کرتا ہے۔ اسی سے فرد، قومیں اور ریاستی نظام بلند مقام حاصل کرتے ہیں۔ علم کا فروغ ضروری امر ہے کہ جس کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ سید رئیسی ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ جو کام بھی انجام دیا جائے، اس سے متعلق تمام معلومات اور مکمل شناخت حاصل ہو۔ اسی لئے انہوں نے جتنی بھی ملکی مشینری میں خدمات انجام دیں، حیران کن ہیں۔ جب انسپکشن ادارے کے سربراہ تھے اور انہیں حکومتی کابینہ کی میٹنگ میں شرکت کا موقع ملتا تو تسلط کیساتھ وزارتوں میں پائے جانے والے نقائص اور مسائل کو اجاگر کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ وزارت کا حصہ ہیں۔ ان کی معلومات حقایق پر مبنی ہوتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1143436
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش