0
Thursday 16 Jan 2025 16:23

مزاحمتی محور کی عظیم فتح

مزاحمتی محور کی عظیم فتح
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اسرائیل نے جدید دور میں لائیو فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ سات اکتوبر 2023ء سے لے کر آج تک ہر روز ایک نیا المیہ لے کر آیا، جبر کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ فرعونیت کے لہجے میں کہا گیا کہ ہم ملیا میٹ کر دیں گے۔ حماس اب ماضی کا قصہ بن جائے گی اور اب ہم خود یا ہمارے کنڑولڈ نمائندے حکومت کریں گے۔ ہم طاقت کے زور پر قیدی چھڑائیں گے اور کسی کی ایک نہیں سنیں گے۔ اسرائیل کے جبر اور نسل کشی نے امریکہ اور یورپ کو پوری طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کا جال بچھایا ہوا ہے، اہل فلسطین کی قربانیوں سے واضح ہوگیا کہ یہ سب ڈھونگ ہیں اور اصل میں دنیا پر قبضے کا جدید ہتھیار ہے۔ کچھ لوگ عقل کل بن کر سوال اٹھا رہے ہیں کہ مزاحمت نے کیا حاصل کیا۔؟ جناب مزاحمت موجود ہے اور پورے قد سے موجود ہے، یہی کیا کم ہے۔؟

وہ جو فرعون کے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ ہم کسی کی نہیں سنیں گے، وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ حماس کیا جواب دیتی ہے؟ اہل غزہ نے صبر کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ اسرائیل اور یورپ اس بات پر حیران تھے کہ اتنے مظالم سہنے کے باوجود یہ لوگ حماس کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کر رہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آزادی کا راستہ اس وقت قریب ہو جاتا ہے، جب قوم میں یکسوئی پیدا ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ چار طرف اور آسمان سے پابندیوں کا شکار ریاست بھی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو تو آپ اپنا دفاع اس طرح کرسکتے ہو کہ پوری دنیا سوا سال تک آپ کے وجود کی دشمن رہے، پھر بھی آپ پوری طاقت سے موجود رہتے ہیں۔ بس ریاست اپنی ہو اور اپنے لوگوں کے لیے ہو اور مخلص ہو کر کام کر رہی ہو۔

صلح کی شرائط آپ نے پڑھ لی ہوں گی، پورا غزہ حماس کے پاس ہوگا، جو مجاہد شہید ہوگئے، اگلے ایک سال میں اس سے زیادہ بھرتی کر لیے جائیں گے۔ عمارتیں تعمیر ہو جائیں گی، مگر ان ممالک کے خواب خواب ہی رہیں گے، جو اپنے ذاتی مفادات میں اہل فلسطین کا سودا کرچکے تھے۔ اہل فلسطین کی قربانیوں نے انہیں پسپا کر دیا ہے۔ اہل فلسطین نے یہ راہ دکھلائی ہے کہ مزاحمت اور مسلسل مزاحمت کی جائے تو قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں، مگر آخر میں فتح آپ کی ہوتی ہے۔قابض کے خلاف مزاحمت کی جیت یہی ہے کہ مزاحمت موجود رہے اور متحرک رہے۔اس مزاحمت نے مصر، اردن، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی منافقت سے بھی پردہ چاک کیا ہے، اس پر وقتاً فوقتاً تفصیل سے لکھا جائے گا۔

بی بی سی کے ثقلین امام لکھتے ہیں، فلسطینیوں کی کامیابی صرف ان کے اپنے جان و مال کی قربانیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوئی ہے، بلکہ حزب اللہ، حوثیوں، ایران اور مزاحمت کے محور کی بدولت ہوئی ہے۔ اس یکجہتی نے ایک عالمی تحریک کو جنم دیا ہے، جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، طلباء، ماہرین تعلیم اور عام شہری فلسطین کے کاز میں شامل ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو فلسطینیوں کی حمایت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جیسے نوکریوں کا نقصان، قید، ہراسانی، گرفتاری، جسمانی حملے اور زبانی و بدسلوکی۔ جس طرح دنیا فلسطین کے کاز کو نہیں بھلے گی، اُسی طرح جنگی جرائم کرنے والوں کو نہیں بھولا جائے گا۔

جو ہر چیز کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، ان کو خبر ہو، جنوب لبنان کے شیعہ شیروں کی مزاحمت یاد رکھی جائے گی، یمن کے شیعوں نے حق وفا ادا کیا، عراق کے پیروان امام حسینؑ نے مسلسل محاذ گرمائے رکھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران براہ راست شریک جنگ رہا۔ مسلکی مینڈکوں خبر ہو، صرف لبنان کی شیعہ قیادت کی پہلی تین لیرز جنگ میں شہید کر دی گئی ہیں۔ پورا جنوبی لبنان جو سب کا سب شیعہ ہے، اس وقت کھنڈرات کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ جب حوثیوں پر سعودی اور اماراتی وفادار حملے کر رہے تھے، اس وقت ان کے میزائل اسرائیل پر برس رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان شیعہ خطوں کو ایک لمبے عرصے تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، جو وہ کر بھی رہے ہیں۔ دوسروں نے کیا کیا؟ جب اسرائیل کے ساتھ معاملہ درپیش تھا تو ترکی کی سرپرستی میں شام پر قابض ہو کر فلسطین کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی۔ یہ تاریخ کا سیاہ باب سب کو یاد رہے گا۔

لطیف علیانی نے درست تجزیہ کیا کہ لبنان کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے بعد اس خطے میں دونوں محاذوں پر جنگیں رک گئی ہیں اور اگر اس دوران شامی حکومت نہ گرتی تو اس وقت مزاحمتی محاذ مضبوط ترین حالت میں ہوتا اور اسرائیل کمزور ترین دور سے گزر رہا ہوتا، لیکن نہیں جناب ایک بار پھر سے ترکی نے جہادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا اور شام کی اسرائیل مخالف حکومت گرا دی اور مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے، اسرائیل کو لبنان و غزہ جنگوں میں اہداف کو حاصل کرنے میں جو ناکامی کا داغ لگا ہوا تھا، وہ شام ان کے قدموں میں رکھ کر ان کی لاج رکھ لی، تاریخ ترکی اور خوارج کی امت مسلمہ سے غداری اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

یہ جنگ بندی عارضی ہے، کیونکہ ظالم ایک وقفہ لے گا اور پھر پوری طاقت سے حملہ کرے گا۔ وہ اپنی کمزوریاں دور کرے گا اور اپنی غلطیوں کو درست کرے گا۔ مزاحمت کے لیے بھی خود کو منظم کرنے کا وقت ہے۔ لبنان، عراق، یمن اور ایران میں طاقت کو جمع کیا جائے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، ان کی نشاندہی کی جائے۔ طاقتور پہلووں کو مزید طاقتور بنایا جائے۔ ہر جگہ نئے چیلنجز آرہے ہیں اور اب منافقین کو استعمال کیا جائے گا۔ اس سب پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھیں گے۔ یہ وقت اپنے شہیدوں کی یاد کے ساتھ خوشی منانے کا ہے کہ شکر خدا مزاحمتی محور جیت چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1184739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش