تحریر: سید اسد عباس
قطر کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے قطر میں بدھ کو رات گئے ایک پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہوگا اور اس کی مخصوص ٹائمنگ پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا "امید ہے کہ یہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔"دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔ کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں "غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 ماہ کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا۔"
اس اعلان کے ساتھ ہی عرب دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لبنان، یمن، عراق اور غزہ سمیت مغربی کنارے میں لوگوں نے جشن منایا۔ ایرانی پریس میں اس معاہدے کو مزاحمت کی فتح قرار دیا گیا، جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس اس معاہدے کے تمام نکات سے متفق نہیں ہے۔ انھوں نے معاہدے کی منظوری کے لیے آج یعنی جمعرات کی صبح منعقد کیا جانے والا اسرائیلی کابینہ کا اجلاس بھی موخر کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی کابینہ اس وقت تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کرے گی، جب تک یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ حماس معاہدے کے تمام نکات سے متفق ہے۔ نیتن یاہو کے اعلان کے بعد حماس کے سینیئر راہنماء عزت الرشق نے ایک بیان میں کہا کہ حماس ثالثوں کے ساتھ طے کیے جانے والے تمام نکات پر متفق ہے اور معاہدے کی توثیق کرتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے وزیر خزانہ بتسلئيل سموتريش نے اب تک اپنی پارٹی کے موقف سے نیتن یاہو کو آگاہ نہیں کیا ہے کہ معاہدے کی صورت میں ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ رہے گی یا اسے ترک کر دے گی۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ بتسلئيل سموتريش اور قومی سلامتی کے وزیر إيتمار بن غفير حماس کے خاتمے تک کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے بھی اس معاہدے کو اسرائیل کی سیاسی اور فوجی شکست کہنا شروع کر دیا ہے۔ بہت سے اسرائیلیوں نے نیتن یاہو کے دفتر کے سامنے دھرنا دے دیا ہے کہ وہ حماس سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہ کرے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں غزہ پر حملوں میں شدت لائی گئی ہے، جس کے نتیجے میں 80 کے قریب افراد شہید ہوچکے ہیں۔ نیٹو، وائٹ ہاؤس اور مصری ذمہ داران کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ اب بھی موجود ہے، اس پر اتوار کے روز سے عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
معاہدہ کیا ہے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تازہ مسودے کے مطابق جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں غزہ میں 42 دن کے لیے جنگ روک دی جائے گی، ڈیل کے پہلے روز حماس تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا، پھر اِس سے اگلے ہفتے مزید چار قیدی رہا کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر حماس 33 قیدیوں کو اسرائیل کے حوالے کرے گا، جبکہ اسرائیل نے اِس کے بدلے میں حماس کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اِن فلسطینی قیدیوں میں 190 ایسے بھی ہیں، جو 15 سال سے زیادہ عرصے سے قید میں ہیں۔ چند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے فوری بعد اسرائیل فلسطینی علاقوں سے اپنے فوجیوں کا انخلاء شروع کر دے گا، جبکہ جنوبی علاقے میں بے گھر فلسطینیوں کو شمال کی طرف سفر کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
اِس معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کے پاس فلاڈیلفی کوریڈور میں 800 میٹر کے بفر زون کا انتظام ڈیڑھ ماہ تک برقرار رہے گا۔ معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے میں 16 دن لگ جائیں گے، جس کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بیک وقت ڈیل جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں زندہ مرد فوجیوں اور شہریوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا، جبکہ مارے جانے والے قیدیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت 94 اسرائیلی قیدی موجود ہیں، جن میں سے 34 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ میں چار مزید اسرائیلی شہری بھی موجود ہیں، جنھیں جنگ کے شروع ہونے سے قبل اغوا کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق حماس کے جن جنگجوؤں نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا، انھیں رہا نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اپنے تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی اپنے فوجیوں کو مکمل طور پر واپس بلالے گا۔ اس کے بعد یہ مبینہ طور پر غزہ کے مشرقی اور شمالی اطراف میں 800 میٹر چوڑے بفر زون برقرار رکھے گا، جو اسرائیل کی سرحد سے متصل ہے اور غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کا تیسرا مرحلہ غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ہے۔ غزہ کا بہت بڑا حصہ ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے، لہٰذا اس مرحلے یعنی تعمیرِ نو کے کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حلف برداری کی تقریب سے پہلے پہلے جنگ بندی ہو جانی چاہیئے، ورنہ غزہ پر جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔ سننے میں آرہا ہے کہ ٹرمپ اس معاہدے کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں ہیں اور بائیڈن اپنے دور اقتدار میں یہ معاہدہ طے پانے پر خوش ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے اس جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ نے بہت سے اسرائیلیوں کو بھی حیران کیا ہے، کیونکہ وہ ٹرمپ کی جیت کے وقت ایسے دباؤ کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ مبصرین کے مطابق شاید ٹرمپ اقتدار میں آکر یوکرائن جنگ کے خاتمے اور چین سے تجارتی جنگ جیسے مسائل پر توجہ دینا چاہتے ہیں، یہی سبب ہے کہ انھوں نے جنگ بندی کے اس معاہدے پر زور دیا۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ سعودیہ اسرائیل کو تسلیم کر لے، جو کہ ان کی انتظامیہ کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
کیا اس معاہدے سے امن بحال ہوگا؟
اگر دیکھا جائے تو جنگ بندی کا یہ معاہدہ نہایت حساس بھی ہے اور اہم بھی، اس سے اگرچہ غزہ پر پندرہ ماہ سے جاری جارحیت کا خاتمہ ہو جائے گا، غزہ میں امدادی سامان آسانی سے پہنچ سکے گا، دونوں طرف کے بہت سے قیدی اپنے خاندانوں کو لوٹ جائیں گے، تاہم اس کے نتیجے میں اگر سعودیہ اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ امت مسلمہ کا ایک بڑا نقصان ہوگا۔ ترکی، قطر اور مصر نے حماس پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ معاہدے کو قبول کر لے۔ اسی طرح اسرائیلی حکومت پر امریکہ اور مغربی قوتوں کا دباؤ ہے کہ جنگ بند کر دی جائے۔ نیتن یاہو متعدد مواقع پر اس معاہدے کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر سامنے آئے ہیں، جس کے حوالے سے ان پر اندرونی دباؤ موجود ہے۔ یہ ان کے اس بیانیے کی ایک طرح سے شکست ہے کہ حماس کے خاتمے تک یہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ اگرچہ وہ غزہ سمیت لبنان اور شام میں بہت سے کلیدی اہداف حاصل کرچکے ہیں، تاہم حماس اب بھی موجود ہے، جس کو ان کی سیاسی اور فوجی شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مذاکرات ابتدائی جنگ بندی کے 16 ویں دن شروع ہوں گے۔ سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟ اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔ اسرائیل امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جو فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کا انتظام چلائے گی۔ حماس کو تشویش ہے کہ اپنے قیدی رہا کروانے کے بعد اسرائیل دوبارہ سے حملوں کا آغاز کرسکتا ہے۔ یہ تمام امور تاحال حل ہونے والے ہیں۔ خدا کرے کہ جو بھی فیصلہ ہو، اہل فلسطین کے حق میں ہو۔ آمین