0
Tuesday 25 Jun 2024 20:20

لبنان اور غاصب صیہونی حکومت کی جنگ کے نتائج کیا ہوں گے؟

لبنان اور غاصب صیہونی حکومت کی جنگ کے نتائج کیا ہوں گے؟
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


غزہ پر امریکی سرپرستی میں جاری صیہونی جارحیت کو نو ماہ ہونے والے ہیں۔ دو سو ساٹھ دنوں سے غزہ پر جاری جارحیت کے سنگین نتائج پر نام نہاد عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بہر حال غزہ کی مدد کرنے والے عناصر غزہ کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ یمن اور عراق سمیت لبنان سے مسلسل غزہ کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں۔ ان کاروائیوں میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو ساڑھے تین سو نوجوانوں کی شہادت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن دوسری طرف اگر صیہونی دشمن کی بات کریں تو ان نو ماہ میں لبنان کے محاذ پر ہی حزب اللہ کے ہاتھوں دشمن کو بہت بڑے پیمانہ پر جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ فوجی تنصیبات کا  نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

آٹھ اکتوبر سے حزب اللہ کی کاروائیاں جاری ہیں۔ حزب اللہ کی یہ کاروائیاں صرف اس مقصد کے لئے ہیں کہ غزہ پر غاصب صیہونی جارحیت کو کم سے کم کیا جائے۔ گذشتہ ماہ سے حزب اللہ کی کاروائیوں میں تیزی اور شدت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ حزب اللہ نے پہلی مرتبہ ڈرون سے فضائی حملہ بھی کیا ہے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کو متعدد مرتبہ ناکام بناتے ہوئے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ حزب اللہ کی کامیابیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں خود صیہونی حکومت اور عہدیدار بھی اعتراف کرتے ہیں۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے کہ حزب اللہ نے اپنا ایک ڈرون ھد ھد غاصب صیہونی حکومت کی اہم تنصیبات پر جاسوسی کے لئے بھیجا تھا جو تقریباً ایک گھنٹہ سے زیادہ حیفا اور اہم ترین مقامات کے اوپر جاسوسی کرنے کے بعد کامیابی سے واپس آیا ہے۔ بعد ازاں حزب اللہ کے میڈیا نے حاصل کردہ تمام ویڈیوز کو نشرکر دیا جس کے بعد اسرائیل کے حکام اور فوجی اداروں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔

اس تمام تر صورتحال میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیل حزب اللہ سے انتقام لینے کے لئے ایک بڑی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ خبریں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ اسرائیل نے امریکہ اور دیگر حکومتوں کے ذریعہ لبنان کی حکومت اور حزب اللہ کو پیغام بھیجا ہے کہ شمال فلسطین کے محاذ پر اسرائیل کے خلاف کاروائیوں کو روک دیا جائے تاہم لبنان کے وزیر اعظم میکاتی نے بھی واضح موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر جارحیت کے خاتمہ تک کسی قسم کا تعاون نہیں کر سکتے جبکہ دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے تو امریکی اور اسرائیلی پیغامات کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا ہے۔ یعنی انہوں نے ان کے پیغامات کو اہمیت ہی نہیں دی ہے۔ بہرحال اس تمام تر صورت حال میں گزشتہ ہفتہ ہی امریکی ایلچی ہیوچسٹن نے لبنان میں وزیر اعظم میکاتی اور اسپیکر نبی بری کے ساتھ ملاقات کی اور کہا کہ اگر حزب اللہ نے شمال فلسطین کے محاذ پر اسرائیل کے خلاف کاروائیوں کو نہ روکا تو اسرائیل آئندہ پانچ ہفتوں میں لبنان پر حملہ کرے گا اور امریکہ اور اتحادی اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔

امریکی حکومت کی ان دھمکیوں پر نہ تو لبنان حکومت نے کوئی خاص پیش رفت دکھائی اور نہ ہی حزب اللہ نے اس کا جواب دینا مناسب سمجھا۔ البتہ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنی ایک تقریر میں یہ ضرور کہہ دیا کہ اگر اسرائیل ہمارے ساتھ ایک کھلی جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ حزب اللہ آئندہ ایسی کسی بھی جنگ میں کسی بھی طرح کے قانون اور قاعدے کا خیال نہیں رکھے گی۔ یعنی اسرائیل کو یہ واضح پیغام تھا کہ جیسا کرو گے ویسا ہی تمھیں جواب بھی دیا جائے گا۔دوسری طرف جنگ کی خبروں کے عروج پر پہنچنے کے بعد خود اسرائیلی ماہرین سیاسیات نے صیہونی حکومت کو کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی کھلی جنگ میں جانے سے گریز کریں۔ ایک اسرائیلی ماہر سیاسیات نے یہاں تک کہا کہ حزب اللہ کے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ صرف 72 گھنٹوں میں اسرائیل کو ناقابل رہائش علاقہ بنا سکتی ہے۔

پہلے ہی ماضی کے تجربات کی وجہ سے خود غاصب صیہونی حکومت اور ایجنسیوں کے عہدیدار حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کی باتوں پر اپنی حکومت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب یہ کچھ کہتے ہیں تو یقینی طور پر کرتے بھی ہیں۔ فقط ان کے الفاظ تقریر نہیں ہوتے۔ حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت کے میڈیا نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لبنان کے ساتھ کسی بھی بڑی جنگ میں اسرائیل کو حزب اللہ کے فتح 110 نامی میزائیلوں کا سامنا کرنے پڑے گا جو 330 کلو میٹر کی رینج رکھتے ہیں۔ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار ''اسرائیل ہیوم” نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اسرائیلی الما ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگرچہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے گذشتہ ہفتے اپنے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم کے ارکان کی تعداد تقریباً 1 لاکھ ہے لیکن اس کی فوج کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کے پاس دسیوں ہزار کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل ہیں۔اخبار نے انکشاف کیا کہ حزب اللہ کے پاس ایک حقیقی فوج ہے۔

میزائیلوں کی تعدادکے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک تنظیم کے اندر موجود میزائل سسٹم کا تعلق ہے تو اسرائیلی الما ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جو شمالی میدان  پر نظر رکھتا ہے نے اندازہ لگایا ہے کہ حزب اللہ کے پاس دسیوں ہزار کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور راکٹوں کا ذخیرہ ہے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے تصدیق کی ہے کہ ''حزب اللہ بہت تیزی سے گراڈ اور بلاک میزائلوں کو گائیڈڈ سسٹم سے لیس کررہی ہے۔ جو چیز خاص طور پر تشویشناک ہے وہ مختصر فاصلے کا مسئلہ ہے۔ جہاں تک گائیڈڈ ہتھیاروں کا تعلق ہے اگر حزب اللہ کے پاس مجموعی طور  پر جب طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل شامل کیے جائیں تو حزب اللہ کے پاس اندازاً 250,000 ہتھیار ہیں۔ گذشتہ مئی میں اخبار ''اسرائیل ہیوم” میں پہلی بار شائع رپورٹ میں کہا تھا کہ حزب اللہ نے ماہرین کے اندازوں کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں گائیڈڈ ہتھیار جمع کر لیے ہیں۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے ہتھیاروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ مگرحزب اللہ کا گائیڈڈ اسلحہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اسرائیلی ''الما”انسٹی ٹیوٹ نے اندازہ لگایا کہ حزب اللہ کا ''فتح 110” میزائل 330 کلومیٹر کی رینج تک مار کرسکتا ہے۔ ان کے اثرات کی رینج 10 میٹر تک ہوسکتی ہے اور یہ ایک گائیڈڈ میزائل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حزب اللہ کی ایلیٹ ’رضوان فورسز‘ کے ارکان کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہے۔ اسرائیل میں اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے بعد ایلیٹ فورسز کے اہلکار آٹھ کلو میٹر سرحد سے پیچے چلے گئے۔ حزب اللہ کی ریزرو فورس کی تعداد کے بارے میں تنظیم کے قریبی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ لبنان میں جنگ چھڑنے کی صورت میں اور حسن نصر اللہ کی منظوری سے عراق میں حزب اللہ بریگیڈ اور النجبا موومنٹ اسرائیل کے خلاف جنگجو بھیجنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل نے خطے میں کوئی بھی جنگ شروع کی تو خود اسرائیل کے تحقیقاتی اداروں اور فوجی اداروں کی جانب سے یہ بات کی جا رہی ہے کہ اس جنگ کے نتائج غاصب صیہونی حکومت کے حق میں نہیں ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 1143735
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش