0
Monday 24 Jun 2024 11:17

آپریشن عزم استحکام اور تحفظات

آپریشن عزم استحکام اور تحفظات
تحریر: سید اسد عباس

افواج پاکستان نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف ایک اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بعنوان "آپریشن عزم استحکام" کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقوں میں کالعدم تنظیموں کی کارروائیاں اور بارڈر پار سے دخل اندازیوں میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس آپریشن کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی سربراہی میں منعقد ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف بھی موجود تھے۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اس آپریشن پر اتفاق رائے ہوا ہے، تاہم پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی راہنماء اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے فون پر بات ہوئی ہے، جنھوں نے بتایا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ وہاں معمول کی باتیں ہوئی ہیں۔ آپریشن سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

اتوار کی دن منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں اور متعدد سیاسی رہنماؤں نے مجوزہ فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی اور سپیکر کی طرف سے اس معاملے پر بات کرنے کا موقع نہ دیئے جانے پر اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے شکوہ کیا کہ نہ ہمیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتا ہے اور نہ ہی پالیسی کا معلوم ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ یہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہے تو یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس حد تک عندیہ ضرور دیا کہ آج خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اس وقت سب کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کچھ عرصے سے بدامنی کے خلاف امن جرگے، کانفرنسز اور اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے، تاہم یہاں کسی نئے فوجی آپریشن کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ اگر حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات کا ہی جائزہ لیا جائے تو 9 جون کو لکی مروت میں ایک فوجی کپتان سمیت سات اہلکار دھماکے میں ہلاک ہوئے جبکہ 27 مئی کو خیبر کے علاقے میں پانچ فوجی اہلکار شدت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 26 اور 27 مئی کے دنوں میں 23 مسلح شدت پسندوں کو پشاور، خیبر اور ٹانک کے علاقوں میں ہلاک کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مجوزہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جو بھی آپریشن ہوئے، اس پارلیمان نے اس کے پیرامیٹرز طے کیے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایوان کی بالادستی قائم ہو، مشترکہ اتفاق رائے کے ساتھ ہو، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کمیرہ بریفنگ دے، پھر کوئی کارروائی ہو۔ اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں واضح نہیں ہے کہ یہ آپریشن کر رہے ہیں یا نہیں۔ مجھے ابھی پتا نہیں ہے کہ اس کی پلاننگ کیا ہے، اس آپریشن سے کیا چاہتے ہیں؟ اتنا کہوں گا کہ یہ ایک معمول کا (ایپکس کمیٹی کا) اجلاس تھا اور اس معاملے پر ایک معمول کی بات ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارٹی کی پالیسی واضح ہے۔ ہم اس آپریشن کو نہیں تسلیم کرتے۔

اسد قیصر نے کہا کہ سب سے پہلے تو بات یہ ہے کہ ہم آپریشن کے بہت ڈسے ہوئے ہیں۔ سوات اور وزیرستان میں آپریشن ہوئے ہیں۔ اب سب سے پہلے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ان آپریشنز سے کیا ملا؟ ان میں لوگوں کا بہت نقصان ہوا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے سامنے لایا جائے، تاکہ مشترکہ دانش سامنے آئے۔ حکومتی وزراء قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ اس فوجی آپریشن کے معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا اور پھر اسے ایوان یعنی قومی اسمبلی میں بھی بحث کے لیے لایا جائے گا۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی کے افرا سیاب خٹک نے کہا کہ پہلے یہ طے کر لیں کہ ماضی میں فوجی آپریشن کے کیا نتائج رہے۔ افراسیاب خٹک کے مطابق لوگ دہشتگردوں کے خلاف ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ امن آئے۔ ان کے مطابق ہم سیاح نہیں ہیں، یہاں کے مقامی ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور طالبان ایک ہی چیز ہیں، ہمارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مگر 2021ء تک ہم یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتے تھے کہ یہ ایک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ دکھاوے کے آپریشن ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ آپریشن شروع کرنے سے قبل ریاست پاکستان ضرور ان باتوں کی وضاحت کرے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔؟

گذشتہ حکومت میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی سربراہی اور عمران خان کی منظوری سے جو دہشتگرد واپس لائے گئے اور ان کو ری سیٹل کیا گیا، کیا اس عمل پر کسی کو سزا اور جزا دی گئی۔؟ ایمل ولی خان نے کہا کہ اے این پی اس آپریشن کی کھلم کھلا مخالفت کرتی ہے اور جب تک تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور پرانے حساب کتاب کے ساتھ ساتھ ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جاتا، تب تک ہمیں اس آپریشن پر کوئی اعتماد نہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم آپریشن کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس سے پہلے دو لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں اور لوگ آج تک گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں 36 بازار مسمار کیے گئے۔

منظور پشتین کے مطابق مقامی لوگ امن چاہتے ہیں، مگر وہ دیرپا امن کے خواہاں ہیں۔ منظور پشتین کے مطاق ماضی میں جن لوگوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، وہ مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ پہلے ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کا حساب دیا جائے کہ 800 سے زیادہ فوجی پوسٹوں کے ہوتے ہوئے امن کیوں نہیں قائم ہو رہا۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی نئی مہم جوئی سے قبل مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا جائے، کیونکہ ان کا بھی کوئی حق ہے۔ محسن داوڑ نے بی بی سی کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بنیادی طور پر یہ امریکہ کے مفاد کی جنگ ہے، جو کبھی ایک کبھی دوسرے نام سے لڑی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ افغان طالبان کی لیڈرشپ کو پروٹوکول بھی دیں اور ان کے ماتحت گروہ جو پاکستان میں آپریٹ کرتے ہیں، ان کے خلاف آپریشن کا اعلان کریں تو یہ دو چیزیں ایک ساتھ نہیں ہوسکتیں۔

خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام مرکزی اور صوبائی جماعتوں، قبائلی عمائدین اور  تحریک انصاف کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کے خلاف ردعمل کے بعد نیز گذشتہ آپریشن کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو کوئی ایسا نیا اقدام نہیں کرنا چاہیے، جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے موجود نہ ہو۔ آپریشن رد الفساد کے وقت ملک کی تمام جماعتوں اور دھڑوں نے اس آپریشن کی حمایت کی تھی، تاہم بعد میں اکثر گروہ اس آپریشن کے مخالف ہوگئے، جن میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان بھی شامل تھے۔ آپریشن رد الفساد کے نتیجے میں لاکھوں پختون بے گھر ہوئے، اسی ہزار کے قریب پاکستانی جان کی بازی ہار گئے، پاکستانی معیشت کو کروڑوں کا نقصان ہوا، سینکڑوں فوجیوں کو جانیں قربان پڑیں۔ آج پاکستان میں کسی نئے آپریشن کے حوالے سے ویسا اتفاق رائے موجود نہیں، جیسا کہ آپریشن رد الفساد کے وقت تھا۔ ملک کسی نئے ایڈونچر یا دہشت گردی کی نئی لہر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
خبر کا کوڈ : 1143526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش