0
Tuesday 25 Jun 2024 06:51
(سید ابراہیم رئیسی ؒ)

محبوب ترین صدر(4)

محبوب ترین صدر(4)
تحریر: مقدر عباس

اگرچہ اس وقت کے صدر کا مزاج ان سے مختلف تھا، لیکن ان کا بھرپور تعاون ہوتا۔ ان کی آراء و تجاویز کو وزارت خانوں تک منتقل کیا جاتا۔ اس وقت کے تمام ماہرین اور اکابرین اس بات کے معترف تھے کہ سید ابراہیم رئیسی کا (عدلیہ) دور ایک سنہری دور تھا۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں، خداوند متعال نے عادل حکمرانوں پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ اپنا معیار زندگی معاشرے کے ناتواں لوگوں کے برابر قرار دیں، تاکہ فقیر لوگ اپنے فقر کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی آفت اشرافیہ اور رکھ رکھاؤ ہے۔ عوام اور حکمران دکھاوے ،برتری اور پروٹوکول کے چکر میں افراط کا شکار ہوئے ہیں۔معاشرے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جو بھی سیاسی منصب پر فائز ہیں، وہ اس ماحول کو توڑنے میں اپنی پوری کوشش کریں۔ جس عوام کے خادم بننے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ خادم تو مخدوم بن جاتے ہیں، لیکن عوام کی حالت بد سے بدتر ہو جاتی ہے۔

عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرے، جو فضول خرچ نہ ہوں، جو عیاشیوں میں ملکی سرمایہ نہ لوٹاتے ہوں، جو ذاتی فائدے اور اقربا پروری کے چکر میں ملکی خزانہ داؤ پر نہ لگاتے ہوں۔ سادہ زندگی بسر کرنیوالے، عوام کے درد کا مداوا کرنے والے اور لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہونے والے ہوں۔ یہ وہ معیارات ہیں کہ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نمائندے کا انتخاب ہونا چاہیئے۔ ایسے انتخابات بھی عبادت ہیں کہ جن کی بدولت نیک اور صالح لوگ برسر اقتدار آئیں۔ سید ابراہیم رئیسی کو مشورہ دیا گیا کہ جمشید آموز گار (شاہ کا وزیراعظم) کے ڈرائیور کا گھر جس میں باغ بھی ہے۔ آٹھ سو میٹر پر محیط ہے۔ سستی قیمت میں آپ خرید سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ لوگوں نے انقلاب اس لئے برپا نہیں کیا کہ ملکی سربراہ اور نمائندگان عالیشان محلوں میں زندگی بسر کریں۔ وہ ایک عام شہری کی طرح جب اپنے کام سے فارغ ہوتے، مکان کی تلاش میں پراپرٹی ڈیلروں کے پاس جاتے، تاکہ اپنی اہل و عیال کے لئے گھر ڈھونڈ سکیں۔

کافی زحمتوں کے بعد اپنے پیسوں سے ایک گھر خریدا، اس کے لئے کچھ رقم قرض بھی لینا پڑی۔ جلد ہی اپنے قرض کی ادائیگی کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب وہ عدلیہ میں اہم مقام اور عہدے پر فائز تھے۔ قوموں کی تقدیر کے فیصلے شجاع اور دلیر رہبروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ جنہوں نے عظیم کام کرنے ہوں، ان میں خوف، لالچ اور ڈگمگانے کی کیفیت نہیں ہوتی۔ شجاعت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان اندھا دھند کام سرانجام دے۔ انسان صحیح فکر کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے اور جب وہ کام انجام دینے کا فیصلہ کرلے تو پھر کسی بھی قدم پر لڑکھڑاتا ہوا نظر نہ آئے۔ 1999ء میں جب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس احتجاج کی حالت میں تھے۔ اسی اثناء میں سید ابراہیم رئیسی کو شریف یونیورسٹی میں تقریر کی دعوت دی گئی۔ مشورہ دیا گیا کہ ساتھ سکیورٹی والوں کو بھی لے جائیں۔ جواب دیا کہ یونیورسٹی میں علمی ماحول ہے۔ کوئی بدمزگی اور سکیورٹی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ حالات اس طرح کے تھے کہ کوئی بھی حکومتی سربراہ یونیورسٹیوں میں جانے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔

جب یونیورسٹی پہنچے، ہال بھر چکا تھا۔ اگرچہ مخالفت میں نعرے نہیں لگ رہے تھے، لیکن ٹینشن والا ماحول تھا۔ اسٹیج پر پہنچے، اسٹوڈنٹس نے مسلسل سوالات کئے اور سید رئیسی نے مدبرانہ انداز میں جواب دیئے۔ تقریباً نشست دو گھنٹے برقرار رہی۔ سید رئیسی نے اچھے انداز میں جواب دے کر ماحول سازگار بنا دیا۔ مولا علی علیہ السلام نے مالک اشتر (رض) کو فرمایا! تم اپنی خواہشوں پر قابو رکھو اور جو مشاغل تمہارے لئے حلال نہیں ہیں، ان میں سے خرچ کرنے میں اپنے نفس کیساتھ بخل کرو، کیونکہ نفس کے ساتھ بخل کرنا ہی اس کے حق کو ادا کرنا ہے۔ چاہے وہ خود اسے پسند کرے یا ناپسند۔ کسی بھی نظام میں سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ حکومتی منصب پر بیٹھنے والے، جب عوامی خدمت کو چھوڑ کر اپنی عیاشیوں میں لگ جاتے ہیں، ملکی خزانے کو پر کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں اور بینک بیلنس کو بھرتے ہیں؛ ملکی وسائل کو اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ (تب عوام اور حکمرانوں میں فاصلہ ایجاد ہوتا ہے)۔

امام خمینی (رح) نے اپنے آپ کو بھی اس آفت سے محفوظ رکھا اور ملکی عہدیداروں کو بھی نصیحت کی کہ محلوں میں عیاشی کی زندگی سے اجتناب کریں۔ مال ذخیرہ کرنے کی بجائے عوام سے اپنی قربت کو زیادہ کریں (سید علی خامنہ ای)۔ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے سوال و جواب کے بعد باہر نکلے۔ کچھ اسٹوڈنٹس بھی ساتھ نکلے اور آقای رئیسی کی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا ان کی گاڑی کہاں ہے؟ بتایا گیا یہی سادہ گاڑی ان کی ہے۔ اسٹوڈنٹس تعجب سے پوچھ رہے تھے کہ واقعاً یہ ان کی گاڑی ہے۔ اس وقت ایک عام افسر کے پاس بھی اچھی گاڑی ہوتی تھی، لیکن وہ اسی سادہ (پیکان) گاڑی میں سفر کرتے۔ جب لوگوں نے آقای رئیسی کی سادگی دیکھی تو ان کی تعظیم و تکریم کرنے لگے۔ بہترین حاکم وہ ہے، جس کی نیت اور کام دونوں اچھے ہوں۔

حکمرانی کے اسلامی اصولوں میں ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان ہر کام کو خدا کی رضا کے لئے انجام دے۔ جب کام خالص نیت کے ساتھ ہو تو خدا حاکم کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس بات کا ہم نے اپنی آنکھوں سے آقای رئیسی کے جنازے میں مشاہدہ کیا۔ سب ان کے لئے گریہ کناں تھے۔یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے ملاقات کے اگلے دن ہی ایک اخبار نے سرخی لگائی کہ انسپکشن ادارے کے سربراہ نے جب یونیورسٹی کا دورہ کیا تو مخالفت میں نعرے لگائے گئے۔ البتہ یہ اخبار والوں نے شرارت کی تھی۔ لکھا کہ آقای رئیسی یونیورسٹی سوال جواب کی نشست میں گئے تو "سربراہان مملکت حیا کرو، بیت المال کو رہا کرو" ان نعروں کے ساتھ ان کو رخصت کیا گیا۔ میں (راوی) اس کے بعد جب اخبار کے منیجر کے پاس گیا۔ اس سے کہا کم از کم انصاف سے تو کام لو۔ امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اگر تمہارا کوئی دین مذہب نہیں تو آزاد لوگوں کی طرح رہو۔ میں خود وہاں تھا۔

سٹوڈنٹس نے جب آقای رئیسی کی سادہ سی گاڑی دیکھی تو ان کی حمایت میں نعرے لگائے۔ وہ کہنے لگے، یہ ہمارے ایک لڑکے کی شرارت کی وجہ سے ہوا ہے۔ پھر معذرت کی۔ اس کے بعد میں آقای رئیسی کے پاس گیا، ساری بات ان کو بیان کی۔ اطمینان سے مجھے کہنے لگے! اگر تمہاری منزل خانہ خدا ہے اور اس کی زیارت کے شوق میں بیابانوں کا سفر کر رہے ہو تو پھر رستے کے کانٹوں کی تکلیفوں سے پریشان نہ ہو۔ حق کے رستے میں آنیوالی رکاوٹوں اور تکلیفوں سے پریشان مت ہو۔ مزید کہا ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں، ہمارے شھداء نے اس رستے میں سینہ سپر ہو کر جانیں دی ہیں۔ ہم ایک عام سپاہی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ یہ جو کہتے رہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔
تندی باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1143441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش