0
Thursday 27 Jun 2024 12:00

سانحہ مدین کے حقائق

سانحہ مدین کے حقائق
رپورٹ: سید عدیل زیدی

وطن عزیز پاکستان میں بدقسمتی سے ہر گزرتے وقت کیساتھ شدت پسندانہ رجحانات، عدم برداشت اور مذہبی جنونیت بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں کا قانون کو ہاتھ میں لینا، توہین مذہب کے الزامات عائد کرکے بغیر تحقیق کے کسی بھی شخص کو موت کے گھاٹ اتار دینا معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ بحث طویل ہے کہ اس صورتحال میں حکومت اور ریاستی اداروں کا کیا کردار رہا ہے؟ کن کن مقاصد کے تحت ایسے گروہوں کو جنم دیا گیا کہ جو معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات کو جنم دیں؟ تاہم یہ صورتحال کسی بھی طور پر مملکت پاکستان کیلئے بہتر نہیں۔ اسی قسم کا ایک افسوسناک واقعہ گذشتہ دنوں سوات کے علاقہ مدین میں پیش آیا، جہاں ایک غیر مقامی شخص کو توہین قرآن مجید کا الزام عائد کرکے بیہمانہ طریقہ سے زندہ جلا کر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد حسب روایت قانون حرکت میں آتا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق تیس سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور اب بھی پولیس مطلوب افراد کی گرفتاری کیلئے سرگرم ہے۔

ہوا یوں کہ سلیمان نامی شخص 18 جون کو پنجاب کے علاقہ سیالکوٹ سے مدین آیا اور ہوٹل میں کمرہ کرایہ پر لیا، ہوٹل مالک کے مطابق 20 جون کو دیگر کمروں میں رہائش پذیر لوگوں کے شور پر جب میں وہاں پہنچا، تو لوگوں کے ہاتھوں میں قرآنِ مجید کے جلے ہوئے اوراق تھے۔ وہ سلیمان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے، مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔ بعد میں جب اس نے دروازہ کھولا تو اس وقت پولیس آچکی تھی اور وہ ملزم کو اپنے ساتھ تھانہ لے گئی۔ مقامی صحافی ظفر کے مطابق یہ بات اہم ہے کہ ہوٹل کے جس کمرے میں سلیمان رہ رہا تھا، اس کے قریب والے کمروں میں رہائش پذیر لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ کمرے میں مذکورہ شخص قرآنِ مجید کی توہین کا مرتکب ہوا ہے۔؟ اگر وہ کمرے میں یہ عمل کر رہا تھا تو پھر قرآنِ مجید کے اوراق ان کے پاس کہاں سے آئے۔؟ مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد مساجد میں اعلانات کئے گئے، لاؤڈ سپیکر والی گاڑی سے بھی اعلانات ہوئے، جس کے بعد ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس بارے میں تو صرف ہوٹل والوں کو معلوم تھا تو مساجد میں اعلانات کس نے کئے اور پہلے سے ایک گاڑی پر لاؤڈ سپیکر کس نے باندھا تھا۔؟ اب مذکورہ ہوٹل پولیس نے سیل کر دیا ہے، تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ان کمروں میں کون رہائش پذیر تھا۔ ایس ایچ او مدین اسلام الحق نے بتایا کہ جب میں ملزم کو تھانے لے آیا تو میں نے ملزم سے پوچھا کہ تم قادیانی ہو؟ تو اس نے کہا کہ نہیں، الحمداللہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تم نے قرآن مجید شہید کیا ہے تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں، کیوں قرآن شریف شہید کروں گا۔ اس دوران مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کر دیا تو ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لئے میں اس کو اپنے کوارٹر لے گیا، لیکن مشتعل افراد میرے کوارٹر تک پہنچے اور ملزم کو اپنے ساتھ لے گئے۔ مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں بھی ایک قرآن مجید شہید ہوا ہے۔ مدین پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے تھانے کے اندر 9 گاڑیوں اور دس موٹر سائیکلوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ نذرِ آتش ہونے والی گاڑیوں میں ایک موٹر کار میں قرآنِ مجید تھا جو شہید ہوگیا۔

مشتعل مظاہرین نے تھانے کے کچھ کمروں کو بھی آگ لگائی، ریجنل پولیس آفیسر کے مطابق ملزم کے خلاف ملک بھر میں صرف ایک ایف آئی آر درج ہے، جو اس کی والدہ نے اس کے خلاف 4 جولائی 2022ء کو تھانہ سول لائن میں کٹوائی تھی۔ جس میں سلیمان کی والدہ نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا ملیشیا سے واپس آیا ہے، گھر میں مجھے گالیاں دیتا ہے اور قتل کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ ظفر کے مطابق مقامی لوگوں سے ملاقات میں معلوم ہوا کہ اس عمل میں ایک مذہبی گروہ ملوث تھا، یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مدین میں تمام مظاہرے مدین اڈے میں ہوتے ہیں، لیکن ان مشتعل عوام نے سیالکوٹ کے اس شخص کو سور پل کے پار لے جا کر جلایا اور اس کو جلانے کے لئے پہلے سے لکڑیاں موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ذرائع کے مطابق اس واقعے کی منصوبہ بندی چند دن قبل کسی اور جگہ کی گئی تھی اور اس عمل کے لئے جمعرات کا دن اس لئے منتخب کیا گیا تھا کہ اگلے دن جمعہ کو سوات بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوں، لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور سوات کو بچالیا۔

اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق کوئی واضح ثبوت نہیں ملے کہ قتل شدہ شخص نے قرآن مجید کو شہید کیا تھا۔ اگر اس شخص نے ایسا قبیح فعل سرانجام بھی دیا تھا، تو اس کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ جو اس مشتعل ہجوم یا اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈز نے اپنایا۔ کسی شخص کو اس طریقہ سے زندہ جلانے کی اجازت نہ دین دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔ درست ہے کہ پاکستان میں قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم اگر مشتعل مظاہرین نے دینی جذبہ کی بنیاد پر یہ اقدام کیا تو کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ دین مبین اسلام تو انصاف کے تقاضوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، قانون کو ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، اگر اس شخص نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ہے تو اس کو قانون اور شریعت کے مطابق سزا ملنی چاہیئے تھی، لیکن تحقیقات میں قتل ہونے والا شخص اگر بے گناہ ثابت ہو جائے تو اس کو زندہ جلانے والے اسلام کے مطابق اپنے لئے کس سزاء کا تعین کریں گے۔؟ ریاست کو اس قسم کے واقعات کو روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے، ایسے واقعات سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے بلکہ یہ وطن عزیز کیلئے بھی زیر قاتل ہے۔
خبر کا کوڈ : 1143402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش