ڈاکٹر سجاد حسین استوری کا تعلق گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقہ استور ہرچو سے ہے۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاوں سے حاصل کرنے بعد جماعت نہم میں کراچی چلے گئے اور پچیس سال کراچی میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ آپ نے 2009ء میں کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے کئی سال جامعہ کراچی اور اردو سائنس کالج میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔ کراچی یونیورسٹی میں 2006ء سے آپ نے تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔ 2007ء میں آپ نے گلگت بلتستان میں ایک سماجی ادارہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ معرفت ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے معروف ہے اور اسی این جی او کے تحت گلگت بلتستان بھر میں بلا تفریق رنگ و نسل اور مسلک و مذہب وحدت کے فروغ اور گلگت بلتستان میں معیار تعلیم کو بہتر کرنے اور صحت کے مواقع بڑھانے کیلئے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اپنی اسی این جی او کے تحت بلتستان میں "نیو سینچری بورڈنگ ہاوس" کے نام سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سرگرم عمل ہے اور تعلیم کا مرکزی ادارہ "نیو سینچری اکیڈمی" کے نام سے گلگت میں زیر تعمیر ہے جو گلگت بلتستان بھر میں منفرد ادارہ کی حیثیت سے تعلیم و تربیت فراہم کرے گا۔ ان دنوں آپ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت اسکردو کیمپس میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے بین الاقوامی اور قومی حالات کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ) اسلام ٹائمز: تھیولوجی کے استاد ہونے کی حیثیت سے آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ دنیا میں اس وقت اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور نظر بھی یہی آ رہا ہے کہ تقریباََ تمام اسلامی ممالک میں دہشت گردی ہو رہی ہے اور دوسری طرف بعض اس دور کو اسلام کی نشاط ثانیہ قرار دے رہے ہیں اس میں کیا تضاد نہیں دکھائی دے رہا۔؟ ڈاکٹر سجاد حسین: اسوقت مسلمان جس اسلام کو پیش کر رہے ہیں یقیناََ ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ ایک وحشتناک مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ قتل و غارت گری زیادہ تر مسلم پٹی کے اوپر جاری ہے اور اسلام کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں جبر ہے، اکراہ ہے، زور ہے، زبردستی ہے، قتل ہے۔ ایک اسلام کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ایک اسلام وہ ہے جو حضرت محمد عربی (ص) نے دیا وہ اسلام اور اس اسلام میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ اسلام پیغمبر خدا (ص) نے پھیلایا مکہ میں تیرہ سال اور مدینہ میں گیارہ سال رہے، آپ (ص) کی بعثت کے بعد تیرہ سال میں سوائے جنگ تبوک کے کوئی ایسی جنگ نہیں جس میں آپ نے Offensive جنگ لڑی ہو بلکہ آپ پر جنگیں مسلط کی گئیں تو آپ نے جنگ دفاعی لڑی اور تلوار کی بنیاد پر اسلام نہیں پھیلایا تھا بلکہ اپنے کردار اور امن و آشتی کے تحت اسلام کو پھیلایا ہے لیکن یہ جو اسلام پیش کیا جا رہا ہے یہ بات حقیقت ہے کہ اس کی وجہ سے اسلام کا ایک بگڑا ہوا چہرہ سامنے آ رہا ہے جبکہ اسلام ایک اعلٰی اور ارفع مذہب ہے۔
میں عام طور پر کہا کرتا ہوں کہ دیکھیں اسلام میں جدت کی بھی ضرورت نہیں ہے، اسلام کبھی پرانا نہیں ہوتا ہے بلکہ ہم نے اس اسلام کی ظاہری شکل کو بگاڑ دیا ہے۔ اسلام اپنی جگہ تروتازہ ہے جسے انگریزی میں کہا جاتا ہےResency ہے۔ اس میں تازگی ہے اس میں جدت ہے، اس میں جاذبیت ہے، انسانیت ہے، اس اسلام کی طرف متوجہ ہونگے تو یقیناََ دنیا میں اس اسلام کو قبول کرنے پر لوگ تیار ہونگے۔ ایک چھوٹی مثال بتاوں کہ حضور (ص) کے زمانے میں دو طرح کے لوگ آپ کے پاس آتے تھے کچھ لوگ وہ تھے جو ارادہ کرتے تھے کہ حضور (ص) کی مخالفت کریں تو ان کے کفر اور نفاق میں اضافہ ہوتا تھا اور ہٹ دھرمی اور ضد کے نتیجے میں حضور (ص) کے پاس رہ کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکے، اسی طرح کچھ لوگ ایسے تھے جو حضور (ص) کی تحریک کو نہیں جانتے تھے لیکن وہ دیکھنے آتے تھے کہ یہ شخص کیا کہتا ہے۔ جب حضور (ص) کے پاس آتے تو متاثر ہو کر جاتے تھے کفار مکہ ایسے لوگوں کو روکتے اور جادوگر و شاعر اور مجنون کہہ کر لوگوں کو تبلیغ سے روکتے۔ اسی طرح اسلام کو سمجھنے کی نیت سے دیکھیں تو اسلام ایک آفاقی اور مذہب کہ کوئی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ 1998ء کے یو این او کی سروے کے مطابق دنیا کا تیز ترین پھیلنے والا مذہب ہے۔ یہ سلامتی اور امن و آشتی اور محبت کا مذہب ہے۔ اس میں انتشار و فرقہ پرستی اور قتل و غارتگری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے دنیا اس طرف آ رہی ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے اور یہ قرین قیاس بھی ہے کہ تمام تر سازشوں کے باجود دور جدید اسلام کا نشاط ثانیہ ہے۔
اسلام ٹائمز: امریکہ ایک عرصے سے مشرق وسطیٰ میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے اور اب تو کھل کر سامنے آ گیا ہے اس کے پیچھے کیا امریکی عزائم ہیں اور اس میں کیا امریکہ کو کامیابی ملنے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔؟ڈاکٹر سجاد حسین: میں انتہائی اختصار کے ساتھ عرض کرتا چلوں کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ اسلام دو طرح کا ہے ایک اسلام امریکائی اور اسلام محمدی (ص)۔ اسلام امریکائی امریکن میڈ اسلام ہے اور اس اسلام کا آقا و مولا امریکہ ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا کے جتنے بھی ممالک ہیں انکے مطیع ہوں اور وہ ان پر قابض ہو، دنیا کی معیشت پر بھی ان کا قبضہ ہو۔ اس کام کے لیے امریکہ نے اسلامی ممالک کو سافٹ ٹارگٹ کے طور پر لیا ہے۔ آپ جانتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ تیل مسلم ممالک کے پاس موجود ہے، جیسے اوپیک کو لے لیں، اوپیک میں سب سے بڑا ملک سعودی عربیہ ہے اس کے بعد عراق، ایران اور کویت ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس پٹی کے اوپر قابض ہو تاکہ معاشی طور پر اپنی ریاست کو مستحکم کرے۔ دوسری طرف بدقسمتی سے چند ایسے مسلم ممالک ہیں جو امریکہ کی پالیسی کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ قرآن مجید نے یہود و نصاریٰ کو ولی، دوست اور سرپرست قرار دینے سے منع کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم ممالک امریکی سرپرستی کو قبول کر چکے ہیں۔
کہا جاتا ہے سعودی عرب نے امریکہ کو اتنے تیل سے نوازا ہے کہ اگر امریکہ عرب سے تیل نہ بھی لے تو امریکہ پچاس سال تک بغیر تیل کے سروائیو کر سکتا ہے تو اس بینادی وجہ سے امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ڈیرے جما لئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کچھ مسلم ممالک اس راہ میں رکاوٹ ہیں جس میں ایران پیش پیش ہے اور میں یہ واضح کرتا چلوں کہ جہاں مشرق وسطیٰ میں امریکی انٹرسٹ ہے وہاں وہ نظریاتی جنگ بھی موجود ہے۔ اس کے سدباب کے لیے ایران نے کچھ ممالک کو ہم نظر ذاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ نظریاتی اور اسلام کے مفاد میں ساتھ ملا دیا تو امریکہ نے چند ممالک کو ہمنوا بنا کر ایران کے ساتھ لڑوا دیا جیسا کہ انقلاب اسلامی کے وقت بعثی حکومت صدام کے ذریعے حملہ کروایا اور آٹھ سال جنگ جاری رہی۔ امریکہ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ حکمرانوں کو استعمال کرتا ہے اور پھر اٹھا کے پھینک دیتا ہے۔ جب صدام کی ضرورت ختم ہوئی اور اٹھا کے پھینک دینے کے بعد امریکہ نے سمجھا کہ عراق میں دوسری رژیم ہماری فکر کے مطابق ہوگی لیکن عراق کے علماء اور عوام نے باشعور ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کی سازش کو ناکام کر کے عوامی حکومت کو سامنے لائے۔
امریکہ کو محسوس ہوا کہ انتخابات کے بعد انکی پسند کی حکومت نہیں آئی ہے تو انہوں نے حملہ کروایا۔ آپ کو یاد ہوگا جب امریکہ نے شام پر حملہ کروایا تو وہاں پر بشار الاسد آئیڈل حکمران ہرگز نہیں لیکن جس انداز سے ہٹانے کی کوشش کی گئی باہر سے دہشتگردوں کے ذریعے حملہ کروا کر اور قتل و غارتگری کے ذریعے جو کہ ناقابل برداشت تھی اور امریکہ کو بشار الاسد سے بھی دشمنی اسے لیے تھی کہ اول تو وہ امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر نہیں تھا اور دوم اسرائیل کے خلاف ہمیشہ سے فلسطینیوں اور لبنیانیوں کو لاجسٹک فراہم کرتا رہا۔ امریکہ کی کوششوں کے باجود شام میں دہشت گرد تنظیمیں ناکام ہوئیں۔ اب جو دہشت گردوں کو عراق کی طرف لایا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ عراق میں بھی شکست کھائیں گے۔ ایک بات بتاتا چلوں کہ عرب ممالک میں جو لہر چلی ہے وہ عوامی نفرت کا اٹھتا ہوا دھواں موروثی حکمرانوں اور بادشاہوں کے خلاف ہے یہ دھواں ایک دن بھڑک اٹھے گا اور ہر خس و خاشاک کو بہا لے جائے گا۔ عوام میں شعور بیدار ہوا ہے جسے امریکہ ختم کرنا چاہتا ہے جو کہ ممکن نہیں۔ امریکہ مشرق وسطیٰ پر اپنی پسند کی حکومت لانا چاہتا ہے تاکہ تیل کی دولت سے استفادہ کرے اور اسرائیل جنایت کار کو مضبوط تر کرے۔ اس کام کے لیے جتنی انسانی جانوں کی ضرورت ہو امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ جسکا بین ثبوت ان دنوں غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشتناک بربریت پر امریکہ کا موقف ہے۔ امریکہ کا ہم و غم اسرائیل جنایتکار کو بچانا ہے کیونکہ خود امریکہ کی شہہ رگ صہیونی پنجے میں ہے۔ امریکہ اسرائیل کی خوشنودی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر میں امریکہ جو واویلا مچا رہا ہے وہ اسرائیل کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔مشرق وسطیٰ میں مچانے والا شور بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
اسلام ٹائمز: پاکستان اسوقت دہشتگردوں کے نرغے میں ہے۔ دہشت گردی کی اصل وجہ کیا ہے اور اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کس حد تک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔؟ ڈاکٹر سجاد حسین : اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں عالمی استعماری سازش ہے اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کو لڑایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ ممالک امریکہ کے زرخرید غلام ہیں، جہاں پر چند مفتیوں کے ذریعے سادہ لوح عوام کو انتہا پسند بنایا جا رہا ہے۔ یہاں دہشت گردی کے بڑے عوامل ہیں اور اہم مذہبی جذبات کو بھڑکانا بھی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں بلکہ عالمی تکفیری گروہ اس کام میں آگے آگے ہے۔ پاکستان میں اسوقت جو مسائل ہیں اسے فرقہ واریت قرار دینا غلط ہے بلکہ یہاں عالمی استعماری ایجنٹ ایک مخصوص تکفیری گروہ ہے جو مٹھی بھر ہے اور یہ آدم خور طبقہ بلا تفریق مذہب و مسلک انسانوں کا خون بہا رہا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں یہ گروہ صرف شیعوں کے پیچھے ہے یہ بات غلط ہے جیسا کہ ایک سال قبل آپ نے دیکھا کہ ملاکنڈ ڈویژن کی جامع مسجد میں اہلسنت دیوبندی کی مسجد پر حملہ کیا اور سو سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عالمی طاقتوں کی ایماء پر کام کر رہے ہیں۔
اس طرح گذشتہ ماہ آپ نے دیکھا کہ عراق میں داعش نے سات اہل سنت علماء کو شہید کر دیا اور انکی لاشوں کی بےحرمتی بھی کی گئی۔ جہاں تک دہشت گردی کو ختم کرنے کا تعلق ہے میری رائے یہ ہے کہ جو قرآن نے فارمولا دیا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن میں کہا گیا ہے "فقتلوا ائمتہ الکفر" یعنی ائمہ کفر کو قتل کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشتگردوں کو سزا دے کے معاملہ حل ہو جائے گا جو کہ غلط ہے۔ ٹھیک ہے ان کو سزا ملنی چاہیئے لیکن یہ حل نہیں۔ حل ان کی ڈوریاں ہلانے والوں کو ختم کرنا ہے۔ انکی تربیت گاہوں اور نرسریوں کو سبوتاژ کیا جانا چاہیئے۔ پہلی مرتبہ پاکستان میں ان دہشت گردوں کے خلاف "ضرب عضب" کے نام پر نہایت شاندار آپریشن کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آرمی کا شمار دنیا کے بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ دنیا نے پاک آرمی کی صلاحتیں دیکھی ہیں۔ پاکستان آرمی کے لیے دہشت گردوں کو ختم کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جس سنجیدگی سے آپریشن جاری ہے امید ہے دہشت گردی کا جن قابو میں آ جائے گا اور ہماری دعا بھی پاکستان آرمی کی کامیابی کے لیے ہے۔
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں دہشت گردی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہاں پیش آنے والے سانحات کو کیا فرقہ واریت سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں اور آپ خود بھی سانحہ لولو سر جیسے افسوناک واقعے کے عینی شاہد ہیں، جہاں سے آپ معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔؟ ڈاکٹر سجاد حسین: ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ عالمی طاقتوں کی نگاہ میں گلگت بلتستان کی اہمیت غیر معمولی ہے اور عالمی استعماری سازشوں کے سلسلے یہاں گلگت بلتستان تک ہیں۔ متعدد بار شاہراہ ریشم کو شیعہ مسلمانوں کے خون سے رنگین کیا جاتا رہا۔ آپ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں کہیں کوئی فرقہ واریت نہیں۔ گلگت بلستتان میں جتنی رواداری اور امن و محبت ہے پورے ملک میں نہیں۔ گلگت شہر میں کچھ عرصے سے مختلف مسالک کو آپس میں لڑایا جاتا رہا جبکہ پورے گلگت بلتستان میں تمام مکاتب فکر نہایت امن و بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ یہاں کی عوام باشعور ہیں اور تمام مسلمانوں کو بھائی سمجھتے ہیں تاہم گلگت بلتستان کی مثالی رواداری کو ختم کرنے کے لیے عرصہ دراز سے سازشیں جاری ہیں۔ گذشتہ سالوں میں کئی سانحات کرائے اور شاہراہ ریشم پر ایک ہی سال میں چار افسوسناک سانحات پیش آئے جس میں شیعہ مسافرین کو دوسروں کو الگ کر کے ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا جاتا رہا تاکہ فرقہ ورایت کو ہوا ملے۔ ان سانحات میں سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس اور سانحہ بابوسر شامل ہے۔ میں خود سانحہ لولوسر یا بابوسر کا عینی شاہد ہوں۔ میرے سامنے دو درجن کے قریب اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے نہتے مسافرین کو ذبح کیا گیا میں معجزانہ طور پر بچ گیا، خدا نے دوبارہ زندگی دی اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اگر میں آج زندہ ہوں میرے اہلسنت بھائیوں کے دفاع کی وجہ سے انہوں نے دہشت گردوں کے ساتھ جھگڑ کر مجھے شیعہ ہونے سے چھپا لیا مجھے بچانے والے اہلسنت بھائی نہیں چاہتے تھے کہ میں بھی مارا جاوں وہ مجھے جانتے تھے اور میری علمی سرگرمیوں کے معترف تھے تو میں پھر کیسے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں فرقہ واریت ہے۔ اس کے بعد میں نے عزم کیا ہے کہ باقی ماندہ زندگی جہالت، فرقہ واریت اور نفرت کو ختم کرنے اور بھائی چارگی، محبت، روادای اور علم کی روشنی کو بغیر تفریق رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے صرف کروں۔