0
Tuesday 18 Jun 2024 09:41

بچوں کے خلاف جنگ

بچوں کے خلاف جنگ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غزہ پٹی میں سرکاری اطلاعات و نشریات کے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ صیہونی حکومت کے حملوں میں اب تک 15 ہزار سے زائد بچے شہید ہوچکے ہيں۔غزہ پٹی میں سرکاری ذرائع نے جنگ کو 252 دن گزر جانے کے بعد فلسطینی بچوں کی صورت حال کے بارے میں ایک بے حد بھیانک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپوٹ کے مطابق گذشتہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 15 ہزار 694 بچے غاصب صیہونی حکومت کے حملے میں شید ہوچکے ہيں جبکہ 34 ہزار کے قریب فلسطینی بچے زخمی ہيں اور 3 ہزار 600 بچے ملبوں کے نیچے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا 1500 بچے، ہاتھ، پیر یا آنکھوں سے محروم ہوچکے ہيں یا پوری طرح سے معذور ہوگئے ہيں جبکہ تقریباً 200 بچوں کو غاصب صیہونی فوجی اپنے ساتھ لے گئے۔ 17 ہزار بچے یتیم ہوگئے ہیں، جن میں سے تقریباً 3 فیصد بچوں کے ماں باپ دونوں ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح 700 سے زائد بچوں کو مجبور ہوکر اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے غزہ میں فلسطینی بچوں کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس علاقے میں جاری جنگ کو بچوں کے خلاف جنگ قرار دیا۔ یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں اس کے ملازمین سب سے زیادہ تعداد میں غزہ جنگ کے دوران مارے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے بچوں پر اسرائیلی جنگ کے اثرات اس قدر ہیں، جنہیں دیکھتے ہوئے اس جنگ کو بچوں کے خلاف جنگ کہا جا سکتا ہے۔ یونیسیف کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے غزہ پٹی کے دورے کے دوران اسپتالوں میں جو مناظر دیکھے، وہ ہولناک ہیں اور وہاں کے ڈاکٹر بڑے عجیب حوصلہ کے مالک ہیں۔

درایں اثناء اسلامی جمہوریہ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر  کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرائم پیشہ اسرائیلیوں کو   فلسطین میں عوام اور بچوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھنے کی چھوٹ انسانی حقوق کے دفاع کے جھوٹے دعویداروں نے دے رکھی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے سماجی رابطے کے ایکس پیج پر لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف کے ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کو بچوں کے خلاف جنگ کہا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یونیسیف کے ترجمان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں اس ادارے کے کارکنوں کی سب سے زیادہ تعداد جنگ غزہ میں، اسرائیلی حملوں میں ماری گئی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ یہ ایک المناک اور دہلا دینے والی حقیقت ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ بچوں کی قاتل جرائم پیشہ صیہونی حکومت اور اس کے لیڈروں کو کس نے یہ چھوٹ دی ہے کہ وہ دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کی کوئی پرواہ کئے بغیر، روز مرہ کی بنیاد پر فلسطین میں انسانوں اور بچوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھیں۔؟ ناصر کنعانی نے اس سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ جرائم پیشہ صیہونی حکام کو یہ چھوٹ انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں نے دے رکھی ہے۔ ادھر برطانیہ میں قائم بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر حلیمہ بیگم نے صیہونی حکومت کو برطانوی ہتھیاروں کی فروخت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں برطانوی ہتھیاروں سے معصوم فلسطینی بچوں اور ان کے والدین کو قتل کیا جا رہا ہے۔

آکسفام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر حلیمہ بیگم نے مقامی اخبار دی گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بیک وقت اسرائيل کو اسلحہ اور غزہ کے لیے امدادی سامان بھیجنا اخلاقی قدروں اور عقل سے متصادم ہے۔ ویسٹ بینک کے دورے سے واپس آنے والی آکسفام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے کہا کہ برطانیہ کو صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت فوری طور پر بند کر دینا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات نہ تو اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی عقل اس کو قبول کرسکتی ہے کہ لندن ایک جانب غزہ کو انسانی امداد فراہم اور خطے میں امن کی بات کرے اور دوسری جانب اسرائیل کو بموں کی سپلائی بھی جاری رکھے۔

آکسفام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر حلیمہ بیگم نے لندن کے اس عذر کو عذر لنگ قرار دیا کہ برطانوی اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرف سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت ایک تجارتی معاملہ ہے اور قانون اسے روکنے کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کیوں فروخت کرتے ہیں، جو ہزاروں بےگناہ بچوں اور والدین کو قتل کرنے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ آکسفام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے نشاندہی کی کہ اس وقت غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے 37 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، بچوں پر بمباری کی جا رہی ہے، غزہ کے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور ممکنہ قحط کا سامنا ہے، لیکن برطانیہ صیہونی فوج پر پابندیاں لگانے پر آمادہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر سے انسانیت نابود ہوچکی ہے۔

حلیمہ بیگم نے مزید کہا کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک اس بات پر نسبتاً متحد ہیں کہ غزہ  کے لیے کیا کیا جانا چاہیئے، صرف مغربی رہنماؤں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ اخلاقی طور پر اس وقت کیا کرنا درست ہے۔ ادھر اقوام متحدہ نے صیہونی حکومت کا نام، مسلحانہ جھڑپوں میں بچوں کے حقوق کو پامال کرنے والوں کی فہرست میں درج کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے: سن 2023ء میں مسلحانہ جھڑپوں کے دوران بچوں کے خلااف تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور افسوسناک ہے کہ اس میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ رپورٹ جمعرات کو جاری کر دی جائے گی۔

رپورٹ میں کہا کیا ہے کہ بچوں کی موت اور ان کے زخمی ہونے کا سبب بننے والے تشدد میں سن 2022ء کی بہ نبست 35 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل، مقبوضہ فلسطین، کانگو، میانمار، صومالیہ، نائیجیریا اور سوڈان میں، مسلحانہ جھڑپوں کے دوران سب سے زیادہ بچوں کے حقوق پامال کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ صیہونی حکومت کا نام پہلی بار اس فہرست میں درج کیا گيا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پٹی کے واقعات کے بعد اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی پامالی میں 155 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق صیہونی فوج نے غرب اردن، مشرقی بیت المقدس اور غزہ میں بچوں کی انسانی امداد تک رسائی کو روک دیا ہے۔ گوٹیرش نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے: غزہ پٹی اور غرب اردن میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل، زخمی اور معذور ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ کر مجھے جھٹکا لگا ہے۔ غزہ میں نسل کشی، بچوں کا قتل عام، ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال، کھانا، پانی اور دوائیں نہ پہنچنے دینا فلسطینی قیدیوں اور عام شہریوں کا اغوا نیز ان کے ساتھ وحشیانہ تشدد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غاصب اور اپارتھائیڈ صیہونی حکومت انواع و اقسام کے وحشیانہ جرائم میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

غاصب صہیونی ریاست اسرائیل، معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والی ظالم اور قاتل ریاست ہے اور یہ گھناؤنا کام اس عالمی سماج اور عالمی اداروں کے سامنے ہو رہا ہے، جن کی صدائیں ہر وقت انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق جیسے دلفریب نعروں سے کانوں کو پھاڑ دیتی ہیں، لیکن آج جب وحشی درندہ اسرائیل، غزہ میں فلسطین کے چھوٹے چھوٹے بے گناہ اور معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے تو ان عالمی اداروں کی آواز نہیں نکل رہی ہے، یہ کوئی راہ حل نہیں ہیش کر پا رہے ہیں بلکہ وہ وحشی درندہ یہ جرائم امریکا اور یورپی ممالک کی سرپرستی اور ان کی مدد و تعاون سے انجام دے رہا ہے اور یہ عالمی ادارے اسرائیل کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے جرائم کی پردہ پوشی کر رہے ہیں اور یہی حال دجال عالمی میڈیا کا بھی ہے، جس کا کام ہی اسرائیل کی حمایت میں تحریریں لکھنا اور اس ظالم کے مقابل آنے والوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔

بہرحال غزہ میں بچوں کے قتل عام اور نسل کشی نیز وائٹ ہاؤس کی جانب سے صیہونی حکومت کے جنگی جرائم کی حمایت جاری رہنے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی مذمت کافی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کے لئے کافی سارے مزید عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، تاریخ میں ایک ایک واقعہ رقم ہو رہا ہے۔ ظالم اور مظلومین کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ ہم تاریخ کی کس سمت میں کھڑے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 1142471
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش