اسلام ٹائمز۔ کینیڈا اور امریکہ سمیت کئی غیر ملکی حکومتوں نے کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اندرون اور بیرون ملک سکھ اور کشمیری حریت رہنمائوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اکتوبر 2024ء میں کینیڈا کی نیشنل پولیس سروس نے کینیڈا کی سرزمین پر قتل، بھتہ خوری اور تشدد کے دیگر واقعات سمیت مجرمانہ سرگرمیوں میں بھارتی ریاستی ایجنٹوں کے مبینہ کردار پر ایک بیان جاری کیا۔ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی نے جون 2024ء میں تیسری بار اقتدار سنبھالا، بھارتی حکام نے اقلیتی برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رکھا۔ بھارتی حکام حملوں کے ذمہ دار بی جے پی کے حامیوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہے اور اس کے بجائے مسلمانوں کے گھروں اور املاک کی غیر قانونی مسماری کے ذریعے تشدد کے متاثرین کو ہی نشانہ بنایا۔ بھارتی حکام شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی تشدد کو ختم کرنے میں ناکام رہے جس میں مئی 2023ء سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک اور 60 ہزار سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
مودی انتظامیہ کے انسانی حقوق کے بگڑتے ریکارڈ کے باوجود کئی ممالک نے بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کیا، تاہم جنوری میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اقلیتوں کے خلاف تشدد، بڑھتی ہوئی نفرت انگیز بیان بازی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مئی میں مسلسل دوسرے سال اقوام متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے اداروں کے عالمی اتحاد نے بھارت کے قومی انسانی حقوق کمیشن کی منظوری کو موخر کر دیا۔ بھارتی حکومت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پہلی بار ستمبر میں علاقائی حکومت کے لیے انتخابات کرائے تھے۔ جب کہ حکومت نے دعوی کیا کہ اس نے خطے میں امن و سلامتی بحال کر دی ہے، بہت سے کشمیریوں نے کہا کہ وہ بنیادی آزادیوں پر مسلسل پابندیوں کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ جموں خطے میں جو نسبتا زیادہ پرامن سمجھا جاتا ہے، مئی اور جولائی کے درمیان تشدد میں اضافہ دیکھا گیا جس کے نتیجے میں 15 فوجی اور 9 شہری ہلاک ہوئے۔ ستمبر تک جموں و کشمیر میں 40 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 18شہری، 20 فوجی اہلکار اور 39مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے۔
مارچ میں لداخ میں مظاہرین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا۔ اکتوبر میں بھارتی حکام نے لداخ سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک اور 120 دیگر افراد کو گرفتار کر لیا جو تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ 30 دن پیدل سفر کر کے لہہ سے دہلی پہنچے تھے۔ مذہبی اقلیتوں اور تارکین وطن کارکنوں کو ٹارگٹڈ حملوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت سینکڑوں کشمیری مسلسل نظربند ہیں۔ انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز کو نومبر 2021ء سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون(UAPA) کے تحت جیل میں بند کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو پولیس کی پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملوں، نقل و حرکت پر پابندیوں اور من گھڑت مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مارچ میں حکام نے پانچ سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہونے والے کشمیری صحافی آصف سلطان کو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے ان کے خلاف ایک نیا مقدمہ درج کیا۔