اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ینگ پارلیمنٹرین فورم کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کیا کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 1919ء میں سندھ میں 40 لاکھ ایکڑ اراضی کو طویل نہری نظام کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا تھا جبکہ سندھ کراپ رپورٹنگ سروسز 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ میں اب 14 آبپاشی کینال کو سندھ کے تین بیراجوں کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جاتی ہے جس سے 4.6 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاتا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ پانی کی مسلسل کمی کے باوجود ہم زراعت کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں مزید نہروں کی تعمیر سے صوبے کی زرعی معیشت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1976ء سے 2024ء تک اگر دیکھا جائے تو اس دوران صرف دو سال ایسے گزرے ہیں کہ دریائے سندھ میں پانی کی بہتات تھی، بصورت دیگر صوبہ کو ہمیشہ پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پانی کے معاہدے پر دستخط کے بعد سے سندھ کو اوسطا 11 فیصدپانی کی کمی کا سامنا ہے۔ینگ پارلیمنٹرین فورم کے وفد نے وزیر اعلی سندھ سے کہا کہ وہ انہیں موجودہ آبی وسائل کا ڈیٹا فراہم کریں تاکہ وہ پارلیمنٹ میں ان کے مقصد کی حمایت کر سکیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی اس معاملے کو قومی اسمبلی میں اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔