تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
شمالی شام کے صوبہ حلب پر دہشت گرد گروہوں کے اچانک حملے کو ابھی چند روز ہی گزرے ہیں لیکن ان گروہوں کی حمایت میں پس پردہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھ ہونے کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔ ادھر میڈیا اور تجزیہ نگار حلب پر دہشت گردانہ حملے میں ترکی، امریکہ اور حتیٰ صیہونی حکومت کی مداخلت کو کھل کر بیان کر رہے ہیں۔ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ایک نیا ابھرتا ہوا اداکار شامی مسائل میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ نیا کھلاڑی اس ملک کے عدم تحفظ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یوکرائن کی جنگ اس وقت اپنے وسیع جہتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں روس اور مغرب کے درمیان تنازعات کا منظر نامہ بن چکی ہے۔ ابتدائی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ حلب پر حالیہ دہشت گردانہ حملے کا بھی بڑی حد تک یوکرین سے تعلق بنتا ہے۔
حلب میں یوکرین کے خون کے دھبے
شام سے موصولہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ حالیہ مہینوں میں ترکی کے راستے شام میں داخل ہونے والی یوکرائنی انٹیلی جنس فورسز نے دہشت گردوں کو تربیت دینے اور انہیں مسلح کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس خبر میں یوکرائنی انٹیلی جنس اور فوجی دستوں کی جانب سے شام کے آسمانوں میں دہشت گردوں کی آپریٹو صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے ڈرون تیار کرنے کی ورکشاپ کے آغاز کے بارے میں بھی اطلاعات ملی ہیں۔ موصولہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ تحریر الشام کے دہشت گردوں کے تحفظ اور تربیت کے لئے ایک بہت بڑا خفیہ تربیتی مرکز بنایا گیا ہے۔ یہ اڈہ ادلب کے نواح میں جبل الزاویہ میں واقع ہے اور وہاں غیر ملکی اور عرب قومیتوں کے 200 سے زائد مسلح افراد فوجی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس مرکز میں دہشت گرد اپنی فوجی تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں، جن میں مختلف قسم کے ڈرون، اینٹی آرمر اور اینٹی ٹینک میزائل سمیت عملہ بردار جہاز اور یوکرین میں بنی کچھ جدید توپوں کی تربیت شامل ہے۔
ایک شامی صحافی "محمد مبیض" نے اس حوالے سے تسنیم خبر رساں ادارے کو بتایا کہ "تحریر الشام کے فیلڈ کمانڈرز اور کچھ عسکری ماہرین کو یوکرین کے انٹیلی جنس افسران نے تربیت دی اور اس ملک سے ملنے والے ہتھیاروں سے اس بات کے ثبوت ملتے ہیں۔ اگرچہ یوکرائنی حکام نے ابھی تک حلب میں ہونے والی پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن ملکی میڈیا نے شام میں مقیم دہشت گرد گروپوں کو کیف کی طرف سے دی جانے والی امداد کے بارے میں تفصیلات ظاہر کی ہیں۔ اتوار کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں "کیف پوسٹ" اخبار نے دعویٰ کیا کہ "حلب صوبے پر حملہ کرنے والے کچھ مسلح گروپوں کو یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس (HUR) کے خصوصی دستوں نے تربیت دی تھی۔ دہشت گردوں کی اس تربیت میں دیگر چیزوں کے علاوہ ڈرون کے استعمال پر بھی فوکس کیا گیا ہے۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ سوشل نیٹ ورکس پر شائع ہونے والے ویڈیو کلپس میں دکھایا گیا ہے کہ تحریر الشام نے شامی فوج کی تعیناتی کی جگہوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بموں اور اعلیٰ معیار کے فوٹو گرافی کے لینز سے لیس جدید قسم کے ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔ دوسری جانب حلب میں دہشت گردوں کی شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض نے یوکرائنی فوج کی وردی پہن رکھی ہے۔ شام میں یوکرینیوں کی خفیہ موجودگی کا اندازہ اس ملک کے حکام کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مئی 2023ء میں ایک انٹرویو میں یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس HUR کے سربراہ میجر جنرل کرلوف بڈانوف نے کہا تھا کہ ہم یوکرین کی مکمل فتح تک ہر جگہ روسیوں کو مارتے رہیں گے۔ اس وقت یوکرائنی رہنماء شام کو روسی مفادات پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہترین آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔
Kyiv Post نامی اخبار نے فوجی ذرائع کے حوالے سے حالیہ مہینوں میں یوکرائنی افسران کے زیرتربیت دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خیمیک گروپ 15 ستمبر کو حلب کے جنوب مشرق میں روسی فوجی اڈے پر حملے کا ذمہ دار تھا۔ جس میں روسی حملہ آور ڈرونز اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کو تباہ کیا گیا۔ جولائی کے آخر میں، Kyiv Post کو کئی خصوصی ویڈیوز اور تصاویر موصول ہوئیں، جن میں شام میں روسی افواج کو تباہ کرنے کے لیے یوکرائنی انٹیلی جنس یونٹس کی خصوصی کارروائیوں کا تسلسل دکھایا گیا۔ Kyiv Post ذرائع کے مطابق خیمیک گروپ نے جولائی 2024ء کے آخر میں شام میں روسی افواج پر ایک جدید ترین حملہ کیا اور اس بار اس حملے کا ہدف حلب کے مشرق میں واقع Kuvirs ہوائی اڈے پر روسی فوجی ساز و سامان تھا۔ جون کے اوائل میں، Kyiv Post نے شام کی گولان کی پہاڑیوں میں مختلف چیک پوائنٹس، گشتی ٹیموں اور فوجی سازوسامان کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے والے یوکرین کی خصوصی دستوں کی فوٹیج بھی شائع کی۔
Kyiv Post کے مطابق، اس سال کے آغاز میں دہشت گردوں نے یوکرین کے جنگجوؤں کی حمایت سے شام میں روسی فوجی تنصیبات پر بار بار حملے کیے۔ حالانکہ روسی فوج نے حالیہ مہینوں میں مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں اپنی تنصیبات پر کسی بڑے حملے یا اہم جانی نقصان کی اطلاع نہیں دی ہے۔ اس میڈیا نے حالیہ دنوں میں ایک ویڈیو بھی شائع کی تھی، جس میں دہشت گردوں کو بظاہر حلب صوبے کی ایک عمارت پر یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کی اسپیشل فورسز کا جھنڈا لہراتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرین کی فوج کے انٹیلی جنس یونٹ روس کو تباہ کرنے کے لیے شام میں خصوصی آپریشن کر رہے ہیں۔
گذشتہ مہینوں میں شام میں یوکرین کے خصوصی افسران کی نقل و حرکت کی کئی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔ شام کے ایک باخبر ذریعے نے ستمبر کے آخر میں خبر رساں ایجنسی "اسپوتنک" کے ساتھ بات چیت میں اعلان کیا تھا کہ تقریباً یوکرین کے 250 فوجی ماہرین ادلب صوبے میں دہشت گرد گروہ "تحریر الشام" کے عناصر کو تربیت دینے کے لیے داخل ہوئے ہیں۔ اس باخبر ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ یوکرین کی فوج تحریر الشام کی سربراہی میں ترکستان اسلامک پارٹی سے وابستہ ملیشیا کو ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دے رہی ہے۔ ادھر شامی ذرائع کے مطابق 250 سے زیادہ ڈرونز کو عام شہری سامان اور اسپیئر پارٹس کی شکل میں سمندر کے راستے ادلب پہنچایا گیا ہے۔ یوکرین، جو گذشتہ تین سال سے روس کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور اس نے اپنا 15 فیصد علاقہ کھو دیا ہے۔ اس نے جنگ کے آغاز سے ہی دنیا کے مختلف خطوں میں روسیوں کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اور شام بھی ان میں سے ایک ہے۔ کیف کی توجہ اس وقت شام پر بھی مرکوز ہے۔
یوکرین میں جنگ کے پہلے مہینوں میں بعض ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ امریکہ نے چند شامی دہشت گردوں کو رقم کے عوض روسی فوج کے ساتھ لڑنے کے لیے یوکرین کی سرزمین میں بھیجا تھا۔ اس کے بعد یہ خبریں شائع ہوئیں کہ یوکرین کی فوج نے ادلب میں مقیم دہشت گردوں کے لیے ڈرون بھیجے ہیں۔ ان رپورٹوں کی تصدیق کرتے ہوئے، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعہ کو اسکائی نیوز عربی کو بتایا ہے کہ کئی مہینوں سے مشرقی یورپ کے افسران تحریر الشام کو ڈرون استعمال کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ اس انکشاف سے ان حملوں میں مغربی ممالک کے ملوث ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی یوکرین میں روس سے اپنی بارگین پاور بڑھانے کے لئے شام میں روس کے اخراجات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت روس کے ساتھ یوکرین کی کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور یوکرین کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
افریقہ میں روسیوں کے خلاف یوکرین کی کوششیں
روس کے ساتھ یوکرین کا تنازع صرف شام کے میدان تک محدود نہیں ہے، بلکہ بعض دیگر مقامات پر یہ تصادم نچلی سطح پر موجود ہے۔ جولائی میں، یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے سپیشل فورسز یونٹ کے ترجمان آندری یوسف نے مغربی افریقہ کے ساحل کے علاقے میں تواریگ ملیشیا کی مدد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ Tuareg حملہ جس میں ویگنر گروپ کے درجنوں فوجی اہلکار اور مالی میں مقامی مسلح افواج ہلاک ہوئے، اس نے اس علاقے میں ایک سفارتی بحران کو جنم دیا۔ اس اقدام کے بعد مالی، نائجر اور برکینا فاسو کے ممالک نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ یوکرین کے خلاف کارروائی کرے، کیونکہ وہ افریقی براعظم میں دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کی ویگنر کے ساتھ جنگ میں Tuareg باغیوں کی حمایت نے افریقی ساحل کے علاقے میں تنازعات کو بڑھا دیا ہے۔