0
Monday 2 Dec 2024 16:43

کرم کی صورتحال پر صوبہ اور وفاق کے الگ الگ جرگے

کرم کی صورتحال پر صوبہ اور وفاق کے الگ الگ جرگے
رپورٹ: سید عدیل زیدی

ضلع کرم میں اکیس نومبر کو بے گناہ اور نہتے مسافروں کے کانوائے پر وحشیانہ حملہ کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کسی حد تک کم ہوئی ہے، فریقین کی جانب سے عارضی فائر بندی کی گئی اور کئی مورچے بھی خالی کراتے ہوئے مقامی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق گذشتہ 13 روز کے دوران اب تک 140 کے قریب لوگ مارے گئے ہیں اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ پاراچنار کے شہریوں کے لئے ملک کے دیگر حصوں سے ملانی والی مین شاہراہ بدستور بند ہے، اگر یہ کہا جائے کہ پاراچنار کی لاکھوں کی آبادی اب بھی محاصرے میں ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ضلع کرم کی اس تشویشناک صورتحال پر صوبائی اور وفاقی حکومتیں متحرک ہوئیں اور اپنے تئیں قیام امن کی کوششوں کا آغاز کیا گیا، اس حوالے سے مختلف جرگے اور بیٹھکیں ہوئیں۔ ضلع میں جنگ بندی، حالات کو معمول پر لانے اور پائیدار قیام امن کیلئے اہم گرینڈ جرگہ منعقد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں کشمنر کوہاٹ آفس میں منعقد ہوا۔

اس گرینڈ جرگہ میں مجلس وحدت مسلمین کے پاراچنار سے رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین، سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی، مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف، کمشنر کوہاٹ، صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، آئی جی خیبر پختونخوا پولیس، ایم پی اے کوہاٹ شفیع جان، ایم پی اے داؤد آفریدی اور کوہاٹ ڈویژن کے تمام پارلیمنٹرین سمیت شیعہ، سنی عمائدین و علماء شریک ہوئے۔ جرگے میں کئی اہم فیصلے اور اعلانات ہوئے، اس موقع پر امن کو برقرار رکھنے، شہداء اور دیگر نقصانات کے ازالہ کے لئے ہر قسم کی امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروئی کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا، دہشت گرد کہلائے گا، دہشت گردوں کا انجام جہنم ہے۔ علی امین گنڈا پور نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ہدایت کی کہ جو بھی امن کو خراب کرے، اس کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جائے۔

علی امین گنڈا پور کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج علاقے میں امن کے لئے تعینات ہے، فوج، پولیس اور انتظامیہ مل کر علاقے میں پائیدار امن کے لئے مربوط کوششیں کر رہے ہیں، علاقے میں قائم تمام کے تمام مورچے بلا تفریق ختم کئے جائیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ، علاقے میں امن کے لئے وفاقی حکومت ایف سی کے پلاٹونز فراہم کرے، گرینڈ جرگہ مکمل امن کے قیام تک علاقے میں رہے، صوبائی حکومت ہر ممکن سپورٹ فراہم کرے گی۔ جو لوگ علاقے میں امن خراب کر رہے ہیں، مقامی کمیونٹی اس کی نشاندہی کرے، فریقین کے درمیان نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے لئے مقامی عمائدین اپنا کردار ادا کریں۔ علاقے میں لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کیا جائے، جبکہ سرحدی علاقے کے لوگوں کے پاس موجود اسلحہ بھی امانتاً جمع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لئے فنڈز ترجیحی بنیادوں پر جاری کئے جائیں، صوبائی حکومت ان بے گھر افراد کی باعزت واپسی یقینی بنائے گی۔

اس جرگہ کے اگلے ہی روز صوبہ میں وفاق کے نمائندے یعنی گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی بھی میدان میں اترے اور ان کی سربراہی میں کمشنر کوہاٹ کی رہائشگاہ پر بھی ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا، جس میں مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر انجنیئر امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء میاں افتخار حسین، قومی وطن پارٹی کے سکندر شیرپاؤ، جے یو آئی (س) کے حافظ عبدالرافع شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم خان، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی رہنماء علامہ محمد رمضان توقیر، مسلم لیگ (ق) کے انتخاب چمکنی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بشریٰ گوہر، پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر محمد علی شاہ باچا، پیپلز پارٹی کے صوبائی نائب صدر و سابق وفاقی وزیر ساجد طوری، سیکرٹری اطلاعات امجد خان آفریدی، کوآرڈینیشن سیکرٹری فرزند وزیر سمیت کوہاٹ، اورکزئی، کرک کے شیعہ، سنی عمائدین بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مفاد میں یکجا ہیں، ہمیں متحد ہوکر امن دشمنوں کی نشاندہی کرنی ہوگی، قیام امن کے لیے عوام کے تعاون سے سخت ترین ایکشن ناگزیر ہے۔ جرگہ کے ساتھ کرم میں امن کیلئے وہاں جتنے بھی دن بیٹھنا پڑے، بیٹھنے کیلئے تیار ہوں، اگر یہاں بیرونی عناصر موجود بھی ہیں تو غالب گمان یہی ہے کہ ان کو پناہ ہمارے اندر موجود لوگ ہی دیتے ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کا جرگہ صدر پاکستان، وزیراعظم، آرمی چیف کے پاس لے کر جائیں گے۔ پاراچنار سے ایک اہم رہنماء نے اسلام ٹائمز کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال عارضی فائر بندی ہوئی، نہ کہ مستقل جنگ بندی، ہمارا ایک ہی موقف ہے کہ جب تک راستے مکمل طور پر محفوظ نہیں بنائے، اس وقت تک کسی طور پر بھی امن کی توقع رکھنا بے سود ہوگا، کرم میں غیر مقامی طالبان لڑ رہے ہیں، لیکن ریاست سوئی ہوئی ہے، یہ راستے ریاست پاکستان کے ہیں اور انہیں ریاست نے ہی محفوظ بنانا ہوگا، اگر ریاست محفوظ نہیں بناسکتی تو ہمیں بتا دے، ہم خود ان راستوں کو محفوظ بنائیں گے، کیونکہ ان راستوں سے ہم نے گزرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1176132
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش