0
Monday 2 Dec 2024 21:37

پرانا مہرہ نیا نام، ھیئۃ تحریر الشام

پرانا مہرہ نیا نام، ھیئۃ تحریر الشام
تحریر: سید اسد عباس

شام میں "ھیئۃ تحریر الشام" نامی تنظیم نے ایک مرتبہ پھر بشار الاسد حکومت کے خلاف پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے، اس گروہ کی اچانک پیش قدمی کے سبب حکومتی افواج اور اس کے حامی گروہ حلب شہر میں کئی ایک اہم مقامات سے پسپائی پر مجبور ہوئے ہیں، جسے تزویراتی پسپائی قرار دیا جا رہا ہے۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ان دہشتگردوں کو حمص میں روکا جائے گا۔ شام میں حکومت مخالف کارروائیوں کا آغاز 2011ء میں بیداری اسلامی یا عرب بہار کے دوران ہوا، جس میں ترکی، مغربی اور عرب ریاستوں منجملہ اردن، عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور قطر کی آشیر باد اور سرپرستی میں کام کرنے والے مختلف گروہ پیش پیش تھے۔یہ تمام گروہ اپنے نظری اور فکری اختلافات کے باوجود انتہائی منظم انداز سے بہت تیزی سے دمشق کی مرکزی شاہراہوں تک پہنچ گئے۔ ان گروہوں کی ہم آہنگی، تربیت، سرپرستی اور آشیرباد کے حوالے سے بہت سے حقائق 2011ء سے 2016ء تک سامنے آئے، جن میں سابق قطری وزیراعظم کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ یہ شامی صدر کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک کثیر ملکی منصوبہ تھا۔ سابق قطری وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اردن اور ترکی میں تربیت پانے والے ان جنگجوؤں کو امریکی اور اسرائیلی تزویراتی اور کمیونیکیشن مدد مہیا کرتے رہے اور اس کی فنڈنگ عرب ممالک نے کی۔

2011ء میں شام میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہوں میں فری سیرین آرمی، شامی فوج کا ایک باغی گروہ تھا۔ داعش، جبھۃ النصرۃ شدت پسند عناصر تھے، جنھوں نے دمشق پر قبضے کے بعد حرم ہائے اہل بیؑت کو مسمار کرنے کا اعلان کیا، اسی طرح شامی کردوں کے دفاع کے لیے بھی ایک تنظیم قائم کی گئی، جسے امریکا کا تعاون حاصل رہا۔ 2011ء اور 2012ء میں داعش اور جبھۃ النصرۃ کی جانب سے شام میں موجود چند صحابہ کرام ؓ کے مزارات کی توہین کے واقعات نے پورے عالم اسلام میں تشویش پیدا کر دی۔ محبان اہل بیت ؑ و اصحاب رسولؐ تڑپنے لگے کہ وہ کسی طرح سے شام پہنچیں اور حرم ہائے مقدس کا دفاع کریں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ حشد الشعبی کے قیام سے قبل عراقی نوجوان دمشق پہنچے اور حرم جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ارد گرد موجود دہشتگردوں سے لڑتے رہے، اس وقت تک کوئی بھی ملک بحیثیت ریاست اس معرکے میں شریک نہیں ہوا تھا۔

اسی دوران میں عراق میں بھی داعش کے فتنے نے سر اٹھا لیا اور وہ موصل سے اٹھ کر سامرہ اور کاظمین کی حدود تک پہنچنے لگے، ساتھ ساتھ کربلا اور نجف میں موجود مزارات کو مسمار کرنے کے دعوے بھی سامنے آنے لگے۔ عراق میں داعش اس تیزی سے آئے کہ جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ عراقی افواج کے بہت سے افسران ہتھیار پھینک کر یا تو داعش کا حصہ بن گئے یا پھر انھوں نے اپنی ذمہ داری یعنی عراقی عوام کے دفاع سے پہلو تہی کی۔ نوبت آئمہ اہل بیت ؑ کے مزارات کو دھماکوں سے اڑانے تک آن پہنچی۔ داعش نے ایک حملے میں سامرہ میں موجود امام علی نقی ؑ اور امام حسن عسکری کے مزار کو تباہ کر دیا۔ ایسے میں ایران میں سپاہ قدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی وارد میدان ہوئے، انھوں نے عراق و شام میں تکفیریوں اور داعشی دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے حزب اللہ اور عراقی کمانڈرز کے تعاون سے عوامی فورسز کی بنیاد رکھی۔

یہ وہ بے مثال جنگی صف بندی تھی، جو جنگ کے دوران ہی کی گئی، ایسے میں عراق کے مرجع عالی قدر سید علی حسینی سیستانی نے دفاع کا فتویٰ صادر کیا، جس کے سبب عراقی نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں مزاحمتی محاذ کا حصہ بننے لگے۔ عراق میں مزاحتمی تنظیموں کا اتحاد معرض وجود میں آیا، جبکہ شام میں متعدد ممالک کے جنگجوو مختلف عناوین کے ساتھ برسر پیکار ہوگئے۔ ایک طویل جنگ کے بعد حشد الشعبی نے عراق میں داعش کو نابود کر دیا اور شام میں روسی فضائی تعاون کے ساتھ مختلف جنگجوو گروہ فری سیرین آرمی، جبھۃ النصرہ، داعش اور کرد جنگجوؤں پر تصرف پانے لگے۔ فری سیرین آرمی اور جبھۃ النصرہ کے بچے کچھے لوگ ادلب اور ترک سرحدی علاقوں میں چھپنے پر مجبور ہوئے اور شامی حکومت کے خلاف کسی بڑی کارروائی سے اجتناب کرتے رہے۔

برسوں کی خاموشی کے بعد 27 نومبر 2024ء کو عین حزب اللہ و اسرائیل کی جنگ بندی کے دن شام کے شمالی علاقوں میں "ھیئۃ تحریر الشام" نامی گروہ پھر سے منظر عام پر آیا اور حلب میں فتح کے جھنڈے گاڑنے لگا۔ حلب شام کا شمالی علاقہ ہے، جس کو گورنیٹ کہا جاتا ہے۔ حلب اور ترکی کے مابین ادلب کا گورنیٹ ہے، جہاں اہل سنت مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ خبروں کے مطابق تحریر الشام میں لڑنے والے نوجوان وہی ہیں، جو 2011ء کی خانہ جنگی میں ترکی کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کو کس نے تربیت دی، یہ بذات خود اہم سوال ہے۔ 2011ء میں داعش سے جدا ہونے والی تنظیم جبهة النصرہ ہی آج "ھیئۃ تحریر شام" کے نام سے سامنے آئی ہے۔ سنہ 2016ء میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر حکومت مخالف گروہوں سے اتحاد کرکے "ھیئۃ تحریر الشام" کی بنیاد رکھ دی۔

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد "ھیئۃ تحریر الشام" کا بیان کردہ مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔ دیگر تفاصیل کے ہمراہ "ھیئۃ تحریر شام" کی حالیہ پیشقدمی کا وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پیشقدمی کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، پورا برس فلسطینی قتل ہوتے رہے، ھیئۃ تحریر شام نظر نہیں آئی، لبنان میں آبادیوں پر حملے ہوتے رہے، ھیئۃ تحریر الشام گمشدہ رہی۔ یہ گروہ ایسے وقت میں سامنے آیا، جب لبنان میں حزب اللہ کی  قیادت میں سے اکثر شخصیات شہید کی جاچکی ہیں۔ حزب اللہ کی جنگی مشینری، اسرائیل کے مقابل لبنان کے تحفظ میں سرگرم عمل ہے، اسی طرح روس یوکرائن جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ھیئۃ تحریر شام کے اصل اہداف کیا ہیں۔؟ اس سوال کا جواب نہایت سادہ ہے اور وہ یہ کہ دیکھنا چاہیئے کہ اس حملے سے حقیقی فوائد کسے حاصل ہوں گے۔ اگر بشار الاسد نہیں رہتا، حزب اللہ اور حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل بند ہوتی ہے، روس کو اپنی افواج کو اس محاذ پر بھی مصروف کرنا پڑتا ہے تو یقیناً ان سب باتوں کا فائدہ اسرائیل اور ان مغربی قوتوں کو ہے، جو اس محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ھیئۃ تحریر الشام والے تو شاید رافضیوں اور بشار الاسد سے کچھ پرانے حسابات بے باک کرنا چاہتے ہوں، تاہم وہ جنھوں نے ان کی بنیاد رکھی اور جنھوں نے ان کو پال پوس کر جوان کیا، ان کے اہداف کچھ اور ہیں۔ مسلمان کو اس قدر بھی سادہ نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ ہر ایرے غیرے کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہے اور اپنے چھوٹے اہداف کے لیے اصل دشمن کو ہی فائدہ پہنچاتا رہے۔

شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے بعد روس اور ایران  کے صدور کا باہمی رابطہ ہوا ہے اور دونوں صدور نے شام کے حوالے سے اپنے مابین پائی جانے والی ہم آہنگی کا اعادہ کیا ہے نیز دونوں صدور نے شامی حکومت کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ عملاً اس حمایت کا اظہار شروع ہوچکا ہے، روس کی جانب سے ھیئۃ تحریر شام کے ٹھکانوں پر حملے کیے گئے ہیں، ایران نے بھی شامی حکومت کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ خبروں کے مطابق عراق میں موجود رضاکار فورس حشد الشعبی کے قافلے حلب پہنچ رہے ہیں۔ شام کا محاذ یوکرائن سے برسر پیکار روس، اسرائیل سے مقابلہ کرنے والے ایران، حشد الشعبی اور حزب اللہ کے لیے اگرچہ فی الوقت ایک اضافی محاذ ہے، تاہم ایسا ضروری محاذ ہے، جس کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔

سال 2024ء، 2011ء سے بہت مختلف ہے۔ آج عراق میں حشد موجود ہے، جو داعش سے جنگ لڑنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے، روسی فضائیہ شام میں موجود ہے، ایرانی فورسز بھی میدان میں ہیں، یقینا "ھیئۃ تحریر شام" کا پراجیکٹ چند ہی روز میں لپیٹ دیا جائے گا، لیکن اس جنگ کا ایک اور پہلو بھی ہے، جو کہ مسلم امہ میں مسلکی تفریق کی ایجاد ہے، تاکہ امہ کی توجہ غزہ کے مسئلہ سے ہٹائی جا سکے۔ اس مرتبہ عرب ممالک 2011ء کے برعکس اسد مخالف گروہوں کی حمایت کے معاملے میں محتاط ہیں، ترکیہ تحریر الشام کی پشت پر کھڑا ہے اور عالم اسلام  کے عوام دوبارہ مسلکی شش و پنج سے دوچار ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ غزہ کے شمال میں نئی یہودی بستیاں بنائے، غزہ کے بیچ و بیچ ایک سکیورٹی زون قائم کرے، دنیا کی توجہ اس کی حرکتوں سے ہٹ کر ایک نئے محاذ کی جانب ہونے کو ہے۔ ایسے میں انسان بس یہی کہہ سکتا ہے کہ خدا "لا الہ الا اللہ" کہنے والوں کو حکمت و بصیرت بھی عطا کرے، تاکہ وہ اپنے حقیقی دشمن کی شناخت کرسکیں۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1176238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش