تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس تنظیم کے رکن ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے امریکی ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی شروع کی تو وہ ان کی برآمدی اشیاء پر سو فیصد تجارتی ٹیکس عائد کر دیں گے۔ ٹرمپ نے "ٹروتھ" سوشل نیٹ ورک پر لکھا ہے کہ برکس کے ممبران کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ برکس کے لیے نئی کرنسی نہیں بنائیں گے اور امریکی ڈالر کی جگہ کسی دوسری کرنسی کی حمایت نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ بصورت دیگر انہیں بھاری محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا اور امریکی مارکیٹ کو بھی الوداع کہنا ہوگا۔ برکس ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، جس میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، مصر، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور ایران شامل ہیں۔ یہ اتحاد سرمایہ کاری کے مواقع کو اجاگر کرنے کے لیے تشکیل پایا ہے۔ یہ تنظیم ایک جیو پولیٹیکل بلاک میں تبدیل ہوچکی ہے اور 2009ء سے لیکر اب تک اس تنظیم کی رکن حکومتوں نے سالانہ کئی باضابطہ میٹنگیں کی ہیں اور کثیرالجہتی پالیسیوں کو مربوط کیا ہے۔
ٹرمپ نے برکس کے ارکان کو دھمکی دی ہے کہ اس گروپ کی تشکیل کا بنیادی مقصد امریکی ڈالر کی بالادستی کا مقابلہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ 2009ء سے برکس کے ممبران نے برکس گروپ کے قیام کے ساتھ ہی تجارتی تعلقات میں ڈالر کے غلبے اور مغرب کی اقتصادی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈالر کے بجائے متبادل کرنسیوں کے استعمال کا معاملہ ہمیشہ سے برکس کے رکن ممالک کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے، جو حالیہ برسوں میں مزید سنگین ہوگیا ہے اور بالآخر اس تنظیم کے رکن ممالک نے اپنے تجارتی پورٹ فولیو سے ڈالر کو ہٹانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ یہ ممالک امریکی ڈالر اور یورو پر عالمی انحصار کو کم کرتے ہوئے اپنے اقتصادی مفادات کی سمت میں قدم اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روس کے شہر قازان میں منعقدہ برکس سربراہی اجلاس میں، ماسکو نے برکس ممالک کے درمیان باہمی بینکنگ نیٹ ورک کو مضبوط بنانے اور مقامی کرنسیوں کے ذریعے سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان کے مطابق برکس سرحد پار ادائیگیوں کے اقدام کے لئے مقامی اور نئی کرنسی کو لانچ کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں روس کے وزیر خارجہ "سرگئی لاوروف" نے اعلان کیا ہے کہ برکس ممالک ڈالر کو بدل کر محفوظ ادائیگی کے نظام کی تیاری کر رہے ہیں۔ لاوروف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ڈالر کی جگہ ایک محفوظ نظام کی تشکیل کے لئے کازان کا سربراہی اجلاس بڑا موثر رہا۔ اسی طرح ہم نے روس کی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے اجلاسوں میں بھی اس کا جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس پلان کا مسودہ تیار ہوچکا ہے، لیکن ابھی تک اسے حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ تاہم یہ مسودہ قابل اعتماد، مستحکم اور طویل مدتی نظام کی تشکیل کو ممکن بناسکتا ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ مخالف ممالک کو واشنگٹن کی پالیسی پر عمل کرنے پر مجبور کرسکے۔ حالیہ برسوں میں ایران، روس اور وینزویلا جیسے ممالک کے خلاف وسیع اقتصادی پابندیاں عائد کرنا امریکی ڈالر کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کی ایک مثال ہے۔ حالیہ دہائیوں کے دوران امریکی حکومت نے ڈالر کو ایک سیاسی ہتھیار بنا دیا ہے، جس کے ذریعے وہ عالمی لین دین اور ملکوں کے درمیان تجارتی تبادلے میں مداخلت کرتا ہے اور ممالک کو واشنگٹن کی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ امریکہ کے بعض اتحادیوں کو بھی اس حوالے سے امریکہ سے شکایت ہے۔
دنیا میں ڈالر کے تسلط کے کمزور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے، جرمن سیاست دان "Sevim Dagdelen" نے اعلان کیا ہے کہ عالمی کرنسی کے طور پر ڈالر جتنا کمزور ہوگا اور ڈالر جتنا زیادہ مالیاتی لین دین سے نکلے گا، نیٹو ممالک کی مزاحمت کے باوجود کثیر قطبی نظام کا راستہ اتنی جلدی ہموار ہوگا۔ امریکہ کے اندر کئی ماہرین نے ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ امریکی ماہر اقتصادیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سیاسی اور اقتصادی میدان میں وسیع معنوں میں امریکی تسلط کا خاتمہ ہوچکا ہے، کہا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کی ترقی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے ڈالر کے غلط استعمال کی وجہ سے عالمی کرنسی کے طور پر ڈالر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ روس، ایران، وینزویلا اور دیگر ممالک کے خلاف پابندیوں میں ڈالر کے بطور ہتھیار کے غلط استعمال سے ڈالر کے استعمال کی حد میں نمایاں کمی متوقع ہے۔
چین اور برازیل کے ساتھ تجارت میں روس کی جانب سے ڈالر کو ترک کرنے کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ رویہ ڈالر پر انحصار ختم ہونے کے عمل کو تیز کر رہا ہے۔ صدارتی انتخابات سے قبل ٹرمپ نے دنیا میں ڈالر کی بالادستی کے زوال کے بارے میں بھی خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی پوزیشن کا گرنا امریکہ کے لئے کسی بھی جنگ میں شکست سے بڑھ کر ہے۔ اسی تناظر میں ریاستہائے متحدہ کے منتخب صدر نے برکس ممالک کو دھمکی دیکر ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی لانے کی سخت مخالفت کی ہے، یہ ایک ایسی دھمکی ہے، جو دراصل ٹرمپ امریکہ کے نومنتخب صدر کی تشویش کو ظاہر کرتی ہے۔ ڈالر کو ترک کرنے کی پالیسی اب رکنے والی نہیں ہے بلکہ اس طرح کی دھمکیوں سے ڈالر کے متبادل کرنسی لانے والے ممالک کا عزم اور زیادہ پختہ ہوگا۔