تحریر: سید منیر حسین گیلانی
(سابق وفاقی وزیر تعلیم)
اس وقت ملکی حالات ہر طرف ناقابل بیان، ناقابل تحریر اور ناقابل اظہار ہیں۔ مختلف علاقوں میں شرپسند قوتیں امن و امان کو درہم برہم کر رہی ہیں، جیسا کہ پاراچنار کے ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کا نہ صرف جینا حرام کر دیا گیا ہے، بلکہ وقفے وقفے سے مسلح گروہ حملہ آور ہوتے ہیں، جس سے کاروبار، آمدورفت اور تعلیمی ادارے بند ہوجاتے ہیں۔ پورے علاقے میں خوف و ہراس، دہشت اور وحشت کی فضا ہے۔ بیگناہ انسان قتل ہوتے ہیں۔ ان قاتلانہ حملوں کی وجہ سے علاقے کی ناکہ بندی کر دی جاتی ہے۔ یہ ناکہ بندی حکومتی ادارے نہیں کرتے بلکہ پشاور سے پاراچنار جانے والوں کے راستے میں مکین مخالفین کرتے ہیں۔ حکومت اور امن و امان کی ذمہ دار انتظامیہ تماشہ دیکھتی ہے۔ اتنی بے بس ہے کہ راستے خالی نہیں کروا سکتی۔ کیا حکومت اور ادارے نہیں سمجھتے کہ پاراچنار تین اطراف سے افغانستان کے علاقے میں گھرا ہوا ہے اور یہاں باڑ لگا دی گئی ہے، اب کوئی شخص افغانستان کے راستے پشاور بھی نہیں جا سکتا۔ چوتھی طرف کا علاقہ جس کا تعلق پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ملتا ہے، یہاں پر طالبان اور اس کے حمایتی مقامی گروہ افغانستان سے بھی حملہ آور ہو کر اس راستے کو بند کر دیتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پاراچنار کے لوگوں کی آمد و رفت اور ضروریات زندگی کی سپلائی کا واحد راستہ کافی عرصے سے بند پڑا ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ پاراچنار کے مخالفین اسلحہ لے کر راستے کی ناکہ بندی کیے ہوئے ہیں۔ کسی کو باہر جانے دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی باہر سے اندر آسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اشیائے خورد و نوش اور ادویات لے کر آنے کی بھی اجازت نہیں کچھ لوگوں نے اپنی ٹرانسپورٹ پر پاراچنار آنے کا خطرہ مول لیا، انہیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ حکومت نے راستے کی بحالی اور آمد و رفت کے لیے فوجی گاڑیوں کے سکیورٹی حصار میں پشاور سے پاراچنار اور واپسی کیلئے کانوائے کی شکل میں اس علاقے سے مسافروں کو گزارنا شروع کیا۔ گذشتہ دنوں سکیورٹی حصار میں ایک کاروان پشاور سے پاراچنار کیلئے چلا تو جب یہ مخالف گروہ کے علاقے سے گزر رہا تھا تو مورچہ بند دہشت گردوں نے نہتے مسافروں پر حملہ کر دیا، جس میں سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ بچوں، خواتین اور معذور افراد سمیت 40 افراد شہید اور لاتعداد زخمی ہوئے۔
لیکن مقتولین کے ورثاء کہتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ کبھی یہ وفاقی حکومت کے زیرانتظام قبائلی علاقہ تھا، پھر اسے صوبہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں شامل کر دیا گیا۔ سالہا سال سے جاری قتل و غارتگری پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتھے پر پسینہ تک نہیں آیا۔ عملی طور پر کوئی احساس ندامت بھی نہیں ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت میں سے ابھی تک مظلوموں کی داد رسی کیلئے کوئی نہیں گیا۔ جس وقت مسافروں کیساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی کیلئے صوبے کے تمام تر وسائل استعمال کرکے وفاق پر حملہ آور ہونے کی تیاری میں مصروف تھے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ چیف منسٹر صاحب خود مظلوم علاقے کے مکینوں سے ہمدردی کیلئے ان کے گھروں پر پہنچتے، اظہار تعزیت کرتے اور فوری سخت اقدامات کا حکم دیتے، لیکن ان کے ذہن میں ایک ایسی سازش پنپ رہی تھی، جس کیلئے وہ پوری قوت اور سوچ کیساتھ تیاری میں مصروف تھے۔
میں یہ گلا کیوں نہ کروں کہ صوبائی حکومت کی بے حسی اپنی جگہ، کیا حکمران اور ریاستی اداروں کے سربراہان عوام کو بتائیں گے کہ وفاقی حکومت نے مظلوموں کی داد رسی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے۔؟ انسانی حقوق کا واویلا کرنیوالی پاکستانی اور بین الاقوامی این جی اوز کہاں ہیں۔؟ سندھ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی، تھر پارکر میں قحط سالی کے موقع پر جانور مرنا شروع ہوگئے تھے تو میڈیا روزانہ کی بنیاد پر شور مچاتا تھا۔ لیکن چار سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران اور اب گذشتہ چھ ماہ سے پاراچنار کا محاصرہ جاری ہے، محب وطن پاکستانیوں کے علاقے کو پاکستان کا غزہ بنا دیا گیا ہے، میڈیا پر مجرمانہ خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے۔؟ ملک کے مقتدر اداروں، عدلیہ، حکمرانوں، سیاسی جماعتوں، وکلا تنظیموں اور دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتا ہوں، کیا پاراچنار پاکستان کا حصہ نہیں؟ کیا اس علاقے کے مکین پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔؟ کیا آئین میں ہر شہری کو دی گئی سہولیات کا اطلاق ان پر لاگو نہیں ہوتا۔؟ وہ بنیادی شہری حقوق جن کا ریاست نے ہر شہری سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی جان، مال، عزت کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے، کیا انہیں دیئے گئے۔
پاراچنار کے شہری بھی اتنے ہی حقوق رکھتے ہیں، جتنے کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ یا کسی اور علاقے کے۔ کیا وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی صرف اسلام آباد کے وزیر داخلہ ہیں، ضلع کرم کو پرامن رکھنے کیلئے انہوں نے کون سا اقدام اٹھایا ہے یا متاثرہ فریق کی حوصلہ افزائی کیلئے کوئی احکامات صادر کیے ہیں۔؟ کوئی بھی نہیں بلکہ حکومتی رویہ احساس دلا رہا ہے کہ یہ علاقہ شاید پاکستان کا حصہ ہی نہیں ہے۔ خدانخواستہ یہاں کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں امن و امان قائم رکھنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس سے بڑھ کر میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں اور آرمی چیف جناب جنرل حافظ سید عاصم منیر سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان کی سالمیت، بقا، امن و امان اور عوام کو تحفظ دینے کیلئے سخت ترین اقدامات کریں، تاکہ علاقے کا امن برقرار رکھا جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ افواج پاکستان ان شرپسندوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی جوانوں اور افسروں کی شہادت کو قبول کرچکی ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے لیے قربانیاں دیتی رہی ہے۔
ہماری گزارش ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان سے لے کر پاراچنار اور دوسرے علاقوں میں امن کے دشمن دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور پاکستان کو پرامن رکھنے کیلئے سخت ترین اقدامات کریں۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام آپ کیساتھ ہوں گے اور کسی جگہ پر بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ وہ پاکستان کی سرحدوں کو غیر محفوظ کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرے گا۔ دوسری طرف افغانستان جو کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے، ہمارے عوام نے اپنی سرزمین پر افغان مہاجرین کی میزبانی کی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔ لیکن افسوس افغانستان کی حکومت اچھے ہمسائے اور برادر اسلامی ملک ہونے کا ثبوت نہیں دے رہی۔ اسی طرح بھارتی سرپرستی میں بلوچستان کے اندر بھی جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کا سامنا خود پاکستانی جوان اپنی جانوں کی قربانی دے کر کر رہے ہیں۔ وہ ملک کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور شرپسند گروہوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ملت پاکستان آپ کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن جس طریقے سے شرپسند لوگ باہر سے حملہ آور ہو رہے ہیں۔ انہیں روکنے کے لیے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا، ورنہ نفرت کے جو بیج بوئے جا رہے ہیں، اس کے اثرات انتہائی تکلیف دہ ہوں گے۔