تحریر: حسنین اولکھ
یکم اکتوبر 2024ء کو اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے، جو کہ 27 ستمبر کو حزب اللہ سربراہ سید حسن نصراللہ کی شہادت پر ایران کا جواب سمجھا جاتا ہے، کے بعد سے یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا، جس کیلئے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر جوابی حملے کیلئے مخصوص اہداف کی منظوری دیدی ہے، امریکہ بہادر کیجانب سے بھی بیان سامنے آیا تھا کہ اسرائیل پر ایرانی حملے پر جوابی کارروائی اسرائیل کا حق ہے۔ 18 اکتوبر کو "ٹاپ سیکرٹ" مبینہ خفیہ دستاویزات لیک ہوئیں، جن میں امریکہ کیجانب سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا، ممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق دستاویزات کا تعلق امریکی انٹیلیجنس اہلکار سے تھا۔ دستاویزات اور سٹیلائٹ امیجز کے مطابق ایران پر حملے کیلئے اسرائیلی تیاریوں اور فوجی ساز و سامان کو نزدیکی اڈوں پر منتقلی کی ایک بڑی فوجی مشق کی گئی، متعلقہ معلومات "فائیو آئیز" یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ شیئر کی جانا تھیں۔
جائزہ رپورٹ میں 2 ائیر لاونچڈ بیلسٹک میزائلوں گولڈن ہورائزن (2000 کلومیٹر دوری تک مار کرنے والا بلوس پاور میزائل سسٹم) اور راکس (دور تک زیرزمین اور زمین کے اوپر مار کرنے والا میزائل سسٹم) کا ذکر کیا گیا۔ ایران پر اسرائیلی ممکنہ حملے کے پیش نظر پاسداران انقلاب کیجانب سے نیتن یاہو کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر ایران پر جوابی حملہ کیا گیا تو اسرائیل کو اس کے خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے، جبکہ ایران نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ممکنہ اسرائیلی حملے میں جن ممالک کی فضائی حدود اور اڈے استعمال ہوئے، ان کو ایران کا واضح ہدف سمجھا جائے گا۔ ممکنہ طور پر اسرائیل کیجانب سے ایرانی جوہری اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، جس کی امریکہ نے مخالفت کی ہے، چونکہ وہ نہیں چاہتا کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل خطے میں تناؤ بڑھے۔ تو دوسری جانب پاسداران انقلاب جو ایران کے اندر اور باہر عسکری اڈوں، اہم شخصیات اور فوج کے تحفظ کو ممکن بنانے کیساتھ مخالف مزاحمت کے اختتام کی خدمات سرانجام دیتے ہیں، اسرائیل کو خبردار کرنے ساتھ ممکنہ حملے کیخلاف تیاریوں میں بھی مشغول تھا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اپنی ٹیکنالوجی اور جوہری صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، جس کی بدولت وہ مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ اور حماس کی صورت میں زبردست ٹکر دینے کے ساتھ مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ ایران فلسطین میں غزہ پٹی، جبالیہ کیمپ اور بیروت میں اسرائیلی بربریت اور نسل کشی پر واضح مؤقف رکھتا ہے اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتا ہے۔ اسرائیل نے یکم اکتوبر کے ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کی جوابی کارروائی میں بروز ہفتہ علی الصبح فضائی حملے کرتے ہوئے تہران، خوزستان، اور ایلام میں فوجی تنصیبات، ڈرون اور فضائی صلاحیت سمیت پاور اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا، ایران نے اسرائیلی حملے پر کہا ہے کہ ایران جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسرائیل کو متناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایرانی فوجی حکام نے ایک بیان میں کہا کہ تہران کے قریب 3 مختلف مقامات پر حملوں کو ناکام بنانے کیلئے فضائی دفاعی نظام کو استعمال کیا گیا، مزید کہا کہ اسرائیل کی کمزور حملے کو بڑا کرکے دکھانے کی ناکام کوشش تھی۔ پاسداران انقلاب نے کسی بھی دفتر کو نشانہ بننے کی تردید کی ہے، ایرانی ائیر ڈیفنس نے تمام ہوائی اڈوں پر صورتحال معمول کے مطابق، حملوں کا کامیاب دفاع اور محدود نقصان کی تصدیق کی ہے، تو دوسری جانب اسرائیلی میزائل حملے ناکام بنانے کی ویڈیو بھی جاری کر دی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران پر حملہ اسرائیلی دفاعی مشق ہے، جس بارے جوبائیڈن کو پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا، وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ ایران پر حملے میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ایران کو جوابی کارروائی کرنے پر خبردار بھی کیا ہے۔ عالمی منظرنامے میں ایران پر اسرائیلی حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کیجانب سے کہا گیا ہے کہ ایران پر حملہ ملکی خودمختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، سعودی عرب نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور عالمی برادری سے کشیدگی کم کروانے اور علاقائی تنازعات ختم کروانے کیلئے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ پاکستان نے بھی ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے اسرائیلی حملے ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے خطے میں اسرائیلی لاپرواہی اور مجرمانہ رویئے کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا اسرائیل کیجانب سے ایران پر حملے تنازعات اور عدم استحکام کا شکار خطے میں خطرناک حد تک کشیدگی کا باعث ہیں۔