تحریر: محمد مہدی ایمانی
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے حال ہی میں مسئولین سے ملاقات کے دوران خطے کے موجودہ حالات اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بے مثال استقامت کا مظاہرہ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ جدوجہد اور استقامت خطے کی تقدیر اور تاریخ بدل کر رکھ دے گی۔ اسی طرح انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کی حتمی شکست اور نابودی کے بارے میں کہا: "غاصب صیہونی رژیم 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کے باوجود شکست کھا چکی ہے، لیکن اس سے بڑی شکست مغربی تہذیب و تمدن اور سیاست دانوں کی رسوائی اور سبکی ہے۔ شیطانی محاذ کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی صف آرائی میں فتح اسلامی مزاحمتی محاذ کو حاصل ہو گی۔" امام خامنہ ای مدظلہ العالی کے اس بیان کے بارے میں تین بنیادی نکات پائے جاتے ہیں جن پر توجہ ضروری ہے:
1)۔ رہبر معظم انقلاب نے غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ صورتحال کے بارے میں لفظ "شکست خوردہ" استعمال کیا ہے جو گرامر کے لحاظ سے فعل ماضی ہے۔ گرامر میں جب فعل ماضی کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام حتمی طور پر انجام پا چکا ہے اور ایک یقینی امر ہے۔ لہذا آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گویا یہ کہا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی شکست حتمی طور پر انجام پا چکی ہے اور میدان جنگ میں کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مزید برآں، اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست صرف فوجی میدان تک محدود نہیں ہے۔ لہذا ہمیں صیہونی دشمن کی شکست کو صرف اس حد تک نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ غزہ جنگ سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار رہا ہے، یعنی نہ تو حماس کا خاتمہ کر سکا ہے، نہ ہی غزہ پر مکمل کنٹرول قائم کر سکا ہے اور نہ ہی حماس کے ہاتھوں اسیر اپنے یرغمالیوں کو آزاد کروا سکا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کی حقیقی شکست یہ ہے کہ اس کا وہ نجس اور کریہہ چہرہ کھل کر پوری دنیا کے سامنے آ گیا ہے جسے وہ گذشتہ کئی عشروں سے مختلف قسم کے خوبصورت نقاب لگا کر چھپاتا آ رہا تھا اور یوں عالمی رائے عامہ کو فریب دے کر ان کی حمایت سے برخوردار تھا۔ عالمی صیہونزم نے ہولوکاسٹ کے افسانوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کے ڈھنڈورے پیٹ رکھے تھے اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہ باور کرا رکھا تھا کہ وہ ایک مظلوم قوم ہے۔ لیکن گذشتہ ایک سال سے غزہ جنگ میں جاری صیہونی بربریت نے اس کا اصل چہرہ عیاں کر دیا اور دنیا بھر کے انسان اس سے نفرت کرنے لگے۔ لہذا غزہ جنگ کے اثرات صرف فوجی میدان تک محدود نہیں رہے۔ آج ہم غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کی ہائبرڈ شکست کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
2)۔ دوسرا نکتہ اس زیادہ بڑی شکست سے مربوط ہے جو آج اسلام دشمن طاقتوں کو نصیب ہوئی ہے اور وہ مغرب کی جانب سے اپنی عالیشان تہذیب و تمدن کے دعووں کا بھرم نابود ہو جانا ہے۔ مغرب نے عالمی رائے عامہ میں یہ تاثر دے رکھا تھا کہ لبرل ڈیموکریسی دنیا کا بہترین نظام ہے اور اب اس کے بعد دنیا کو کسی اور نظام کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن غزہ جنگ نے جمہوری اقدار، انسانی حقوق، آزادی اظہار وغیرہ جیسے تمام مغربی نعروں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ عظیم فتح گذشتہ تقریباً ایک سال سے جاری اسلامی مزاحمتی گروہوں اور مظلوم فلسطینی عوام کی "ہائبرڈ مزاحمت" کا نتیجہ ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اس قدر خطے کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف "ہائبرڈ جنگ" میں غرق تھے کہ انہیں حق کے محاذ کی جانب سے "ہائبرڈ مزاحمت" تشکیل پانے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
وہ اب اس حقیقت کا احساس کر رہے ہیں کہ نہ صرف انہیں میدان جنگ میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے بلکہ اسلامی مزاحمتی سوچ پروان چڑھنے سے عالمی سطح پر ان کی تہذیبی سوچ اور نظریات بھی خطرے کا شکار ہو گئے ہیں۔ مغربی نظام، جس نے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے آئیڈیل نظام کا کردار ادا کرنا تھا اب غزہ جنگ اور مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں انجام پانے والے انسان سوز جرائم کی بدولت ایک گالی بن چکا ہے۔ لہذا اس وقت انسانوں کی اکثریت اس عقیدے کے حامل ہو گئے ہیں کہ مغربی نظام اور آرڈر سے عبور کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مغربی حکمران اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالک، اپنے اتحادی صیہونی حکمرانوں کے ہاتھوں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہونے میں اس قدر مست ہو گئے کہ وہ عالمی سطح پر مغرب مخالف آرڈر تشکیل پانے کا احساس ہی نہیں کر پائے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے اور صیہونی رژیم اور اس کے مغربی اتحادی بربریت اور وحشیانہ پن کی علامت بن چکے ہیں۔
3)۔ تیسرا نکتہ غزہ جنگ میں اسلامی مزاحمت کی فتح کے نتائج کے بارے میں ہے۔ یہ نتائج دنیا کے بہت سے حصوں میں اسلامی مزاحمتی سوچ پیدا ہونے اور مغرب مخالف اور صیہونزم مخالف رجحانات کی پیدائش کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک واحد اپروچ پائی جاتی ہے جو ان کھوکھلے عقائد کے خاتمے پر مبنی ہے جنہیں مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے فروغ دے رکھا تھا۔ آج دشمن اپنے افکار اور عقائد کا دفاع کرنے میں ناکام اور بے بس ہو چکا ہے۔ گذشتہ تقریباً ایک سال سے جاری غزہ کے واقعات کے بارے میں عالمی سطح پر جو تاثرات اور عقائد جنم لے چکے ہیں انہوں نے مغربی صیہونی حکمفرمائی پر کاری ضرب لگائی ہے اور اسے نابودی کے دہانے تک لے گئے ہیں۔ ان نتائج کی حفاظت دنیا کے ہر حریت پسند انسان پر فرض ہے۔ اس سمت میں انجام پانے والی کوششوں کا اجر اب تک کے شہداء کے اجر سے کم نہیں ہے۔