تحریر: سید اسد عباس
BRICS برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے مابین معاشی سرگرمیوں اور تجارتی امکانات کو فروغ دینے کے لیے 2009ء میں قائم ہوا۔ اس تنظیم کا تصور 2001ء میں ماہر معیشت جم اونیل نے پیش کیا۔ ان کی تحریر Building Better Global Economic BRICs اس تصور کی بنیاد تھی۔ 2006ء میں برازیل، روس، ہندوستان اور چین کے وزرائے خارجہ نے اس موضوع پر پہلی نشست کی۔ 16 جون 2009ء کو سفارتی سطح کی نشت روس میں ہوئی۔ اس نشست کا مقصد عالمی معاشی صورتحال اور مالی اداروں کی اصلاح تھا۔ اس نشست میں یہ بھی سوچا گیا کہ چاروں ممالک مستقبل میں کیسے بہتر طور پر ہم آہنگی کرسکتے ہیں۔ 2009ء کی کانفرنس میں ایک نئی کرنسی کی ضرورت پر زور دیا گیا، جو کہ مستحکم اور قابل پیش بینی ہو۔ اس اجلاس میں ڈالر کے تسلط پر براہ راست تنقید نہیں کی گئی، تاہم اس کے اثرات ضرور زیرغور آئے۔
2010ء میں جنوبی افریقہ نے برکس میں شامل ہونے کی کوشش شروع کر دی۔ 24 دسمبر 2010ء کو جنوبی افریقہ اس گروپ کا حصہ بن گیا۔ برکس ممالک نے 2012ء میں عالمی مانیٹری فنڈ کے لیے اس شرط پر 75 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا کہ مانیٹری فنڈ کے ووٹنگ سسٹم میں اصلاحات کی جائیں گی۔ 2014ء میں برکس ممالک نے جدید ترقیاتی بینک کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ 2015ء برکس کے چھٹے اجلاس میں 100 بلین ڈالر کے اثاثوں پر مشتمل جدید ترقیاتی بینک کی بنیاد رکھ دی گئی۔ برکس ممالک کے مابین رابطے کے لیے اپنی فائبر آپٹک کیبل بچھانے کا منصوبہ تشکیل پایا، جسے برکس کیبل کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس کا سبب امریکی سکیورٹی ایجنسی کا تمام انٹرنیٹ ڈیٹا پر جاسوسی کا نظام تھا۔ 2019ء میں برکس ممالک کے وزرائے اطلاعات نے ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ ان ممالک نے طے کیا کہ کرونا کے دوران رکن ممالک کی کمزور معیشتوں کو سنبھالنے کے لیے 15 بلین ڈالر دیا جائے گا۔
2023ء میں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے ولادیمیر پیوٹن اور دوسرے روسی ذمہ داران کے گرفتاری وارنٹ کے اجراء کے باوجود ان کو سفارتی استثنیٰ دیا گیا، تاہم پیوٹن اس اجلاس میں آن لائن شریک ہوئے۔ 15 ویں برکس اجلاس میں جنوبی افریقہ نے اعلان کیا کہ ایران، سعودی عرب، عرب امارات، ارجنٹائن، مصر اور ایتھوپیا کو بھی بلاک میں شامل کرنے کی دعوت دی جائے گی۔ 1 جنوری 2024ء کو ایران، عرب امارات، مصر اور ایتھوپیا نے برکس میں رسمی طور پر شمولیت اختیار کی۔ 2 ستمبر 2024ء کو ترکی نے رسمی طور پر گروپ میں شمولیت کی درخواست دے دی ہے، جبکہ ارجنٹائنا نے گروپ ممبر بننے سے معذرت کی جبکہ سعودیہ نے تاحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اب تک براعظم افریقہ سے 16 ممالک، براعظم امریکہ سے 7، براعظم ایشیاء سے 18 ممالک اور یورپ سے تین ممالک اب تک برکس میں شمولیت کی یا تو درخواست دے چکے ہیں یا اپنی دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان اہم ممالک میں پاکستان، عراق، شام، سری لنکا، وینزویلا، بیلاروس، سربیا، آذربائیجان، انڈونیشیا، ملائشیا، کویت، بحرین، کولمبیا، بولویا، کیوبا، سیلواڈور، تیونس، زمباوے، سوڈان، لیبیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
برکس بینکنگ عالمی نظام سوفٹ کے مقابل ایک نیا نظام تشکیل دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایک کرنسی بھی زیر غور ہے، جس کو قازان میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں پیوٹن کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ روس کے شہر قازان میں منعقدہ ہونے والے تین روزہ سربراہی اجلاس میں اس مرتبہ برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کے علاوہ نئے مستقل ممبران ایران، مصر، ایتھوپیا اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان نے بھی شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایک ممالک کے سربراہان بطور مبصر شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے صدر ایران نے کہا کہ دنیا کی معیشت پر ایک نظام کا تسلط بہت سے مسائل کا سبب ہے۔ انھوں نے کہا کہ برکس بین الاقوامی منظر نامے میں ممالک کی ہم آہنگی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے یک طرفہ پابندیاں بین الاقوامی معیارات اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ یہ پابندیاں بہت سے ترقیاتی کاموں کو چیلنج کرتی ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کانفرنس سے ٹویٹ کیا کہ "سورج مشرق سے طلوع ہو رہا ہے اور حقیقتاً مغرب میں غروب ہو رہا ہے۔" قازان میں ہونے والے اس اجلاس میں مسئلہ فلسطین پر بھی بات ہوئی۔ اجلاس کے اراکین نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال نیز اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور فلسطینی شہریوں کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس اجلاس میں لبنان پر بمباری کی بھی مذمت کی گئی۔ برکس اجلاس میں روس نے برکس سرمایہ کاری پلیٹ فارم بنانے، اجناس کی ایکسچینج قائم کرنے اور قیمتی دھاتوں اور ہیروں کی خرید و فروخت کے لیے علیحدہ پلیٹ فارم بنانے کی تجاویز پیش کیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برکس کے رکن ممالک کی مجموعی معیشت کی مالیت 28.5 کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، جو عالمی معیشت کا تقریباً 28 فیصد ہے۔
روسی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مزید 30 ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا اس گروپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ مغرب کی جانب سے مختلف ممالک پر یک طرفہ پابندیاں، عالمی معاملات میں دوہرا معیار، ڈالر کا تسلط اور اس کے مختلف ممالک کی معیشتوں پر اثرات بالخصوص روس، چین پر امریکی پابندیاں اس اتحاد کی فعالیتوں اور منصوبوں کو تیز رفتار کرنے میں اہم عامل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود برکس ممالک میں موجود اختلافات اور بعض ممالک کے مغرب سے تعلقات اس اتحاد کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ بہرحال امید ہے کہ یہ اتحاد جلد دنیا میں ایک متبادل معاشی نظام کے ساتھ موجود ہوگا، جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ یقیناً دنیا کا معاشی نظام بدلنے سے سیاسی معاملات میں بھی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔