0
Wednesday 23 Oct 2024 09:59

دفعہ 370 خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حالات

دفعہ 370 خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حالات
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

گزشتہ دنوں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے دعوٰی کیا کہ جموں و کشمیر ایک تابناک مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے، سیاحت تیزی سے بڑھ رہی ہے، کشمیر میں سینما گھر پھر سے کھل گئے ہیں، انفراسٹرکچر تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور تین دہائی بعد سرینگر میں محرم الحرام کو جلوس بھی نکالے گئے۔ انہوں نے کہا ’’سرینگر نے کامیابی کے ساتھ G20 میٹنگ کی میزبانی کی اور زمین پر موجود اس جنت میں امن پھر سے لوٹ آیا ہے۔‘‘ بھارتی وزیراعظم ہی نہیں بلکہ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی دعویٰ کیا ہے ’’جہاں علیحدگی پسند کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق اور پتھر تھما رہے تھے، اس کی جگہ اب موبائل فون اور لیپ ٹاپ نظر آرہے ہیں، صنعتیں قائم ہو رہی ہیں اور روزگار مہیا کرایا جا رہا ہے۔‘‘ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی دعویٰ کیا کہ دہشت گردانہ واقعات میں لوگوں کی اموات سے متعلق تعداد میں کمی آئی ہے، پریس آزاد ہوا ہے اور کشمیر میں انتخابات بھی کرائے گئے۔ ایک طرف مذکورہ بالا دعوے ہیں اور دوسری طرف "دی اکونومسٹ" نے اپنی ایک رپورٹ میں ان سبھی دعوؤں کو سچائی سے کوسوں دور بتایا ہے۔

درایں اثناء جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر اور سابق رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019ء کو دفعہ 370 ختم کئے جانے کے بعد سے ریاست میں کچھ نہیں بدلا ہے، بلکہ یہاں تو تشدد کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے گزشتہ دو سال سے جموں کو مرکز بنا رکھا ہے، لیکن وادی کشمیر میں بھی دہشتگردی ختم نہیں ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021ء کے بعد سے وادی کشمیر میں 263 دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے نومنتخب وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے کہا کہ امن قائم ہونے کے مودی کے تمام دعوؤں اور G20 کے تماشے کے باوجود کشمیر کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور اسی لئے جموں و کشمیر اب بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ٹریول ایڈوائزری کا حصہ بنا ہوا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو دفعہ 370 ختم ہونے کے بعد سے ریاست کی معیشت پہلے سے خراب ہوئی ہے۔ فروری 2024ء میں ریاست میں شرح بے روزگاری 17 فیصد پر تھی، جو کہ بھارتی ریاست بہار کے 12.3 فیصد اور ریاست آندھرا پردیش کے 6.6 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ سیاحت میں اضافہ کے تمام دعوؤں کے باوجود اسٹارٹ اَپ اور صنعتوں نے جموں و کشمیر سے کنارہ کر رکھا ہے۔ ویسے تو بہار اور آندھرا پردیش کو اس سال کے بجٹ میں ہاتھ کھول کر پیسہ دیا گیا ہے لیکن جموں و کشمیر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

وادی کشمیر کے اننت ناگ اور راجوری اضلاع سے منتخب نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ میاں الطاف حسین نے بھارتی پارلیمنٹ میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی کے مسائل کو زور و شور سے اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ ریاستی حکومت یا انتظامیہ ملازمین کی پنشن نہیں دے پا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیکیداروں کے بل برسوں سے لٹکے پڑے ہیں۔ دہلی-سرینگر کا ہوائی کرایہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ کشمیر جانے سے بچ رہے ہیں، یہاں تک کہ ایمرجنسی حالات یعنی ضرورت میں بھی لوگ سفر نہیں کر پا رہے ہیں۔ میاں الطاف حسین نے پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کو جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے سے متعلق مطالبہ سامنے رکھا، تاکہ سچائی اور حقیقت سامنے آسکے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا بجٹ طے کرنے سے پہلے ریاست سے کسی بھی لیڈر، تاجر، کاروباری یا صنعت کار سے بات نہیں کی گئی۔ ریاست میں معاشی حالت پر "کشمیر ٹائمز" سے بات چیت کے دوران شعبہ درس و تدریس سے منسلک ایک دانشور نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ذاتی سرمایہ کاری 2022ء میں اس کا نصف بھی نہیں تھی، جتنی کہ 2018ء میں یعنی دفعہ 370 ہٹنے سے پہلے تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جنگ والے علاقے کو سرمایہ کاری کے لئے کس طرح کوئی محفوظ تصور کرے گا۔

ویسے تو ڈل جھیل کو بہت اچھی طرح سجا دیا گیا ہے اور رات کے وقت رنگ برنگی روشنیوں میں وہ نہا اٹھتی ہے، لیکن عام کشمیریوں کے گھروں میں بجلی موجود نہیں ہوتی۔ گزشتہ 5 سال کے دوران کم از کم 64 سرکاری ملازمین کو بغیر جانچ کے ہی ملازمت سے نکال دیا گیا اور الزام طے کیا گیا کہ ان کی سرگرمیاں سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ ریاست سے سب کچھ چھین لیا گیا، زمین، ملازمت، وسائل وغیرہ چھین کر کارپوریٹ اور مودی کے امیر "دوستوں" کو دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال اگست 2023ء میں ہی حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ دفعہ 370 ہٹنے کے بعد سے ریاست کے باہر کے کم از کم 185 لوگوں نے جموں و کشمیر میں زمین خریدی ہے۔ اس کے علاوہ کئی لاکھ لوگوں کو وزیراعظم رہائش منصوبہ کے تحت زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ لیکن مقامی کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کے تحت باہر کے لوگوں کو بھی زمینیں دے دی گئی ہیں، جبکہ منصوبہ مقامی لوگوں کے لئے ہے۔ علاوہ ازیں قبل میں الاٹ زمینوں کی لیز کو رینیو (تجدید) بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔

نئے سرے سے زمینیں الاٹ کیے جانے سے لوگوں میں خوف ہے کہ ان کی زمینیں چھین کر باہر (بھارت) سے آئے لوگوں کو دے دی جائیں گی۔ کشمیر میں تمام اسکول، ہوٹل اور دیگر ادارے لیز کی زمینوں پر ہی چل رہے ہیں۔ دہائیوں سے چلنے والے ان اداروں کی لیز رینیو نہ ہونے سے ایک خوف پیدا ہوا ہے۔ اس بارے میں نیا نوٹیفکیشن آیا ہے، جس کا موازنہ محبوبہ مفتی نے اسرائیل کی اس پالیسی سے کیا ہے، جو قبضے والی فلسطین کی زمینوں کو لے کر بنائی گئی ہے۔ ابھی رواں سال ہی جولائی میں بھارتی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے حقوق اور اختیارات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے تحت اب لیفٹیننٹ گورنر کو سبھی آل انڈیا سروسز، اینٹی کرپشن بیورو، پبلک پروزیکیوشن ڈائریکٹوریٹ، جیل، فورنسک لیب وغیرہ کا کنٹرول مل گیا ہے۔ اس کے بعد اب ریاست میں ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر قانونی افسروں کی تقرری لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے ہی ہوگی۔ اختیارات کے اس حد تک سنٹرلائزیشن سے منتخب اسمبلی یا حکومت کے لئے کام کرنا مشکل ہوسکتا ہے، اس طرح کشمیر کو دہلی کے ذریعہ ہی مکمل کنٹرول کا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1168089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش