تحریر: سید اسد عباس
جنگیں حکمت عملی، لائحہ عمل، تربیت، معلومات، ہتھیاروں تک رسائی، ان کے استعمال میں مہارت اور جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اس میں تخلیقی یا تخریبی صلاحیت کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کا برمحل استعمال جنگ پر نفسیاتی اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں جنگ کا ایک اہم رکن خدا پر توکل اور روحانی امداد کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظریئے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان جنگ کے وسائل کی فراہمی کے لیے کوشش نہ کرے۔ قرآن کریم کا واضح حکم ہے: "اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے، اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو، جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔" (انفال ۶۰)
حماس جس قدر جنگی تیاری کرسکتی تھی، انھوں نے کی، حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جس قدر جنگ کے لیے آمادہ ہوسکتی تھی ہوئی، تاہم اسرائیل کو حاصل فضائی برتری کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی مرکزی قیادت کو فضائی حملوں کے ذریعے ختم کیا۔ اس کے لیے اسرائیل نے برسوں تیاری کی۔ بیس برس اسرائیل سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے اپنے اہداف کا تعین کرتا رہا، جسے وہ سگنل میمپنگ کا عنوان دیتے ہیں، یعنی انہوں نے حزب اللہ کے قائدین کے زیر استعمال رہنے والی الیکڑانک ڈیواسز، ان کے استعمال کا طریقہ کار وغیرہ، ہر چیز کا ایک مکمل نقشہ تیار کیا، جیسے ہی 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغاز کیا، ساتھ ہی حزب اللہ نے شمالی سرحد پر اسرائیل پر حملے شروع کر دیئے۔
اسرائیل نے نہایت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حزب اللہ کی مرکزی قیادت اور اہم کمانڈرز کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ حتی کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کو کہنا پڑا کہ جو الیکڑانک ڈیوائسز آپ استعمال کر رہے ہیں، یہ جاسوسی کے آلات کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ آپ کی تمام تر حرکات دشمن کی نگاہ میں ہیں۔ حزب اللہ کی مرکزی کمانڈ نے سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کا استعمال ختم کر دیا اور رابطوں کے لیے پیجرز اور واکی ٹاکیز کا استعمال کیا جانے لگا۔ اسرائیل نے ستمبر میں تقریباً تین ہزار پیجر ڈیوائسز کو ایک ساتھ دھماکے سے اڑایا، جن کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ان آلات میں دھماکہ خیز مواد ڈالا گیا ہے۔؟ ان میں کوئی چپ وغیرہ نصب تھی وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال ان دھماکوں کے نتیجے میں حزب اللہ کے متعدد اہم اراکین زخمی ہوئے۔ اگلے ہی روز اسرائیل نے واکی ٹاکی دھماکے کیے۔
اسرائیل نے گذشتہ ایک برس میں بہت سے ٹارگٹڈ آپریشن کیے، جن میں حزب اللہ کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، آخری حملہ سید حسن نصراللہ پر کیا گیا، جس میں وہ جام شہادت نوش فرما گئے۔ بہرحال ایران نے اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصراللہ اور دیگر شہداء کا بدلہ لینے کے لیے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں متعدد میزائل اسرائیل کے ائیر بیسز پر لگے۔ اسرائیل کا کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا، اس کو اسرائیلی حکومت نے سینسر کر دیا، تاہم اس کی چیخیں بتاتی ہیں کہ یہ حملے کافی تکلیف دہ تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان حملوں کا ضرور جواب دے گا۔ نیتن یاہو نے ایران پر جوابی حملوں کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف اندازے اور تخمینے سامنے آرہے ہیں کہ اسرائیل ایران کے کن مقامات پر حملے کرسکتا ہے۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات، اس کے توانائی کے ذخائر اور سیاسی لیڈر شپ کو نشانہ بنانے کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے کسی قسم کا بھی حملہ کیا تو ایران کا جواب نہایت تکلیف دہ ہوگا۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے اسرائیل کو امریکی آشیرباد اور جنگی وسائل کی ضرورت ہے، جس میں بنکر بسٹر بمبز، بی 52 بمبار اور دیگر وسائل درکار ہیں۔ فی الحال کی خبروں تک تو امریکا ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا حامی نہیں ہے۔ اگر اسرائیل ایران کی توانائی کی حامل تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو یہ پوری دنیا میں تیل اور توانائی کے دیگر وسائل کی قیمتوں پر برے اثرات کا حامل ہوگا، امریکا اس کا بھی حامی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیا کرے گا۔؟ اگر ہم بدترین منظر نامے کو تصور کریں تو میرے خیال میں یا تو اسرائیل کوئی کارروائی نہیں کرے گا یا پھر حماس اور حزب اللہ کے خلاف جنگ کے تناظر میں اسرائیل ایران کی کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کو نشانہ بنائے گا۔
کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کو نشانہ بنانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں مکمل آبادی کو نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ ایک خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مخصوص مقام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یقیناً اسرائیل ایران کی جوابی کارروائی کو مدنظر رکھ کر ایسا اقدام کرے گا، جس میں جواب کا اندیشہ کم سے کم ہو جائے۔ اسرائیل اب تک اس جنگ میں جو ہدف حاصل کر رہا ہے، وہ مزاحمتی محاذ کو مکمل طور پر بے قیادت کرنا ہے، اسرائیل یقیناً چاہے گا کہ اس جنگ میں مزاحمت کے نظام وسائل کو بھی تہ و بالا کرے۔ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو اسرائیل نے اپنے تئیں ختم کر دیا ہے، یقیناً اس سے مقاومت تو ختم نہیں ہوگی، تاہم ایک خلا ضرور پیدا ہوا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ پر ہوگا۔ میرے خیال میں اسرائیل کا اگلا ہدف وسائل کا سسٹم ہے، اگر اس کو سیاسی اور سفارتی طور پر کنٹرول نہ کرسکا تو یقیناً وہ جنگی ذرائع اختیار کرے گا۔ ہمیں ہر طرح کی صورتحال کے لیے آمادہ رہنا چاہیئے۔