0
Monday 22 Jul 2024 16:44

ہم سب امید سے ہیں!

ہم سب امید سے ہیں!
تحریر: سید تنویر حیدر

صدر جوبائیڈن آخرکار اپنے لڑکھڑاتے وجود کو نئی بننے والی امریکی حکومت کے لیے اہل قرار دینے میں ناکام رہے اور خود ہی صدارت کی دوڑ سے "تشریف" لے گئے۔ وہ کم سے کم اتنا تو سمجھ ہی گئے کہ لیلیء اقتدار کی بھی کچھ اپنی ترجیحات اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
عشق لڑنے کے لیے کچھ دم بھی آخر چاہیے
امریکہ میں اس تبدیلی کے اثرات جو ہوں گے، سو ہوں گے، البتہ پاکستان میں بعض سیاسی پنڈتوں نے الٹی چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسا مسیحا ہے، جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا۔ ملک خداداد پاکستان میں اقتدار کے بھیک منگوں کے لیے امریکہ ایک حاتم طائی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی نظریں ہمیشہ وائٹ ہاؤس کے "چالیس" دروازں پر جمی رہتی ہیں۔

یہ "Beggers" اگرچہ "Choosers" نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ یہ اپنی مراد پانے کے لیے ان دروازوں میں سے کسی بھی دروازے کو منتخب کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے ایک شرط بھی ہے اور وہ یہ کہ انہیں اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے سر کے بل چلنا ہوگا۔ شرط مشکل ضرور ہے لیکن ان اہل جنوں کے لیے ناممکن نہیں ہے:
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
سر کے بل چلنے کا یہ خاصا تجربہ رکھتے ہیں اور اپنے اس ہنر میں یہ اس قدر ماہر ہوچکے ہیں کہ محض اپنے پاؤں کے بل بوتے پر چلتے والے بیچارے ان سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال (رح) نے یہ شعر شاید ان کی شان میں ہی کہا ہے کہ:
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں


اپنی ہائر کی گئی لابیوں کے ذریعے یہ اپنی منزل تک پہنچنے کا راستہ آسان بنا چکے ہیں۔ آنے والی ممکنہ امریکی قیادت بھی ان کے لیے اپنے دیدہ و دل فراش راہ کیے ہوئے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے شہرہ آفاق ایڈوائزر جون بولٹن جیسے افراد کو ابھی ایسا بہت کچھ وہ کرنا ہے، جو وہ اپنے سابقہ دور میں کر نہیں پائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ جنگ کی بجائے امن کو پسند کرتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک امن وہ ہوتا ہے، جو اپنے دشمن کا خاتمہ کرکے حاصل کیا جائے۔ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے فی الحال وہ پاکستان میں ایک ایسی پاپولر قیادت کے مشتاق ہیں، جو ان سے اپنی گہری قربت کا اظہار کرچکی ہے اور وہ بھی اس کے لیے "دوستانہ" جذبات رکھتے ہیں۔

امکان یہ ہے کہ ٹرمپ کے ممکنہ طور پر برسر اقتدار آنے سے ان کے گلشن میں بہار آجائے گی، ان کے قفس کے تار ٹوٹ جائیں گے اور وہ صیاد کی گرفت سے آزاد ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے شوق آوارگی میں اپنے پاکستانیوں کو کسی ایسے دام الفت میں گرفتار کرا دیں، جہاں سے ان کا نکلنا ناممکن ہو جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنوری 2001ء میں جارج ڈبلیو بش کے الیکشن جیتنے پر عراق میں خوشیاں منائی گئی تھیں، لیکن پھر یہ خوشیاں دجلہ و فرات کے پانیوں میں بہ گئیں۔ قتیل شفائی کا یہ شعر آج بھی اپنے دامن میں ایک اٹل حقیقت لیے ہوٸے ہے کہ:
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو
خبر کا کوڈ : 1149198
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش