1
Monday 22 Jul 2024 15:28

فاتح اسلامی مزاحمت اور تباہی کی جانب گامزن صہیونزم

فاتح اسلامی مزاحمت اور تباہی کی جانب گامزن صہیونزم
تحریر: محمد بیات
 
گذشتہ آٹھ عشروں میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کبھی بھی اس طرح مختلف محاذوں سے حملوں اور دباو کا نشانہ نہیں بنی تھی۔ طوفان الاقصی آپریشن کو 287 دن بیت جانے کے بعد غاصب صیہونی حکمران بدستور غزہ میں یرغمال بنائے گئے اپنے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز اور دیگر صیہونیوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ان کے پاس شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کے تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح لبنان، یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف متفقہ مزاحمتی کاروائیوں کے باعث مقبوضہ فلسطین کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی زندگی شدید خطرات کا شکار ہو چکی ہے اور 80 ہزار سے زیادہ آبادکار نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مزید برآں صیہونی رژیم کے اندرونی اختلافات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
 
دوسری طرف امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے صیہونی حکمرانوں پر حماس سے جنگ بندی مذاکرات نتیجہ بخش بنانے کیلئے موثر اقدامات انجام دینے کیلئے بہت زیادہ دباو پایا جاتا ہے۔ صیہونی کابینہ کے اندر بھی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزیر جنگ یوآو گالانت کے درمیان شدید سرد جنگ چل رہی ہے۔ اسی طرح اسرائیلی معاشرے میں ایک بڑا طبقہ حریدی یہودیوں کا ہے جو کسی بھی جنگ میں شرکت کو اپنے مذہبی عقائد کے خلاف تصور کرتے ہیں جبکہ صیہونی عدالت نے ان کا جنگ میں شرکت کو لازمی قرار دے دیا ہے جس کے باعث وہ آگ بگولا ہو چکے ہیں اور آئے دن مقبوضہ فلسطین میں ان کی طرف سے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے جا رہے ہیں۔ شمالی محاذ پر بھرپور جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں صیہونی معاشرہ شدید عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
 
جب غزہ جنگ کا آغاز ہوا تھا تو غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور سیاسی رہنماوں نے باہمی اتحاد کا تصور پیش کیا تھا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ سب اس جنگ کی حمایت میں ایک پیج پر ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور صیہونی فوج کو غزہ میں شدید شکست اور جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو صیہونی فوج اور حکومت میں فاصلے بڑھنے لگے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غزہ جنگ اور اس سے متعلقہ مطلوبہ حکمت عملی کے بارے میں سیاسی، فوجی، سیاسی پارٹیوں اور حتی مختلف سماجی حلقوں سمیت ہر سطح پر شدید اختلاف عیاں ہو چکا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو اپنا کھویا ہوا اعتبار اور اعتماد حاصل کرنے کیلئے غزہ میں خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہے۔ کچھ دن پہلے حماس کے ملٹری ونگ کے سربراہ محمد الضیف کی ٹارگٹ کلنگ کے بہانے غزہ کے شہر خان یونس میں ایک ٹن کے پانچ بم گرا کر سو سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور پانچ سو کے قریب فلسطینیوں کو زخمی کر دیا۔
 
صیہونی وزیر جنگ یوآو گالانت، موساد کا سربراہ بارنیا اور اپوزیشن رہنما جلد از جلد جنگ بندی کا معاہدہ کر کے غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے پر زور دے رہے ہیں جبکہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو مختلف طریقوں سے جنگ بندی مذاکرات میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ حال ہی میں صیہونی رژیم کی پارلیمنٹ (کینسٹ) نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں خودمختار فلسطینی حکومت کی تشکیل کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ بھی جنگ بندی مذاکرات کے نتیجہ بخش ہونے میں اہم رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سعودی عرب سمیت خطے کے عرب ممالک اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور متحدہ عرب امارات اور بحرین پہلے سے ہی ابراہیم معاہدے کے تحت غاصب صیہونی رژیم سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے تھے۔
 
نیو مڈل ایسٹ پراجیکٹ کے تحت آئی مک راہداری اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سکیورٹی تعاون جیسے اہداف حاصل کرنے کی کوشش جاری تھی۔ لیکن حماس کی جانب سے اچانک طوفان الاقصی آپریشن نے ان تمام منصوبوں کو مٹی میں ملا ڈالا۔ دوسری طرف غزہ جنگ شروع ہو جانے اور غزہ میں اسرائیلی بربریت اور جنگی جرائم کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف شدید نفرت نے جنم لیا اور عالمی رائے عامہ میں اسرائیل اپنی حیثیت مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے انجام پانے والی سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت عرب ممالک کے 90 فیصد عوام اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے مخالف ہیں۔ غزہ جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
 
غاصب صیہونی رژیم شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں پوری طرح بے بس ہو چکی ہے۔ اس کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دریائے لیتوانی سے پیچھے دھکیل دینے میں ناکامی ایک تاریخی شکست بن چکی ہے۔ ماضی میں جب بھی عرب ممالک نے اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، اسرائیل نے انتہائی مختصر مدت میں انہیں حتمی شکست سے دوچار کیا تھا۔ لیکن آج حزب اللہ لبنان شمالی محاذ پر گذشتہ تقریباً دس ماہ سے صیہونی رژیم کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر فوجی کاروائیاں انجام دے رہی ہے جبکہ صیہونی فوج کے پاس خاموش تماشائی بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں سے بڑی تعداد میں یہودی آبادکاروں کو نقل مکانی پر مجبور کر دینا اسلامی مزاحمت کی شاندار کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ ایسے حالات میں صیہونی حکمران اندرونی اختلافات کا شکار ہیں اور انہیں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1149178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش