0
Tuesday 18 Jun 2024 20:55

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر
تحریر: جاوید عباس رضوی

بھارت میں فرقہ وارانہ سیاست کے سبب اسلاموفوبیا بہت تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ بی جے پی، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے ہر سطح پر مسلمانوں کو دشمن کی شکل میں دکھانا شروع کردیا ہے۔ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے عروج سے کافی پہلے بھارت میں یہ موجود تھا۔ بابری مسجد کو منہدم کیا گیا۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ہجومی تشدد کو عام کیا گیا۔ بھارت کے اہم حکومتی شعبوں خاص طور پر پارلیمنٹ سے مسلمانوں کو دور رکھا گیا۔ شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پلٹنے سے مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے عمل کو بڑا جھٹکا لگا۔ اب نئے سرے سے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پورے بھارت میں اور خصوصاً کرناٹک میں نفرت بھری تقاریر ہو رہی ہیں۔ مسلم تاجروں کے ساتھ بائیکاٹ کی اپیلیں ہو رہی ہیں، عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی مخالفت ہو رہی ہے اور مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

حکومتی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ’گولی مارو‘ کا نعرہ دینے والے انوراگ ٹھاکر کو ترقی دے کر کابینہ وزیر بنایا گیا۔ ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند کی زبان سے زہریلی باتیں لگاتار جاری ہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کرتے ہیں۔ ہریدوار میں دھرم سنسد (ہندوؤں کے مذہبی اجتماع) نے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا۔ الگ الگ بہانوں سے مسلم کاروباریوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات میں ملوث ’بجرنگ دل‘ کے پانچ کارکنوں کو آسانی سے ضمانت مل گئی لیکن امن و مساوات کی بات کرنے والے فادر اسٹین سوامی کو ضمانت نہیں ملی اور نہ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء یونین کے لیڈر عمر خالد کو۔ جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندو انتہا پسند لیڈروں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جولائی 2021ء سے لے کر دسمبر 2021ء تک نفرت پھیلانے والی 59 تقاریر ہوئی ہیں، ہجومی تشدد سمیت بربریت کی 38 وارداتیں پیش آئی ہیں۔

21 مذہبی مقامات پر حملے ہوئے، 2 مسلم نوجوان پولیس حراست میں مارے گئے اور پولیس کے ذریعہ مظالم و سماجی تفریق کے بالترتیب 9 اور 6 معاملے سامنے آئے۔ ادھر آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان غدار ہیں، ہندوؤں کے دشمن ہیں، ہندوؤں کو اس لعنت سے لڑنے کے لئے متحد ہونا چاہیئے۔ آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ کے شائع ہونے کے اگلے ہی دن ایک اور خبر شائع ہوئی جس نے اس مضحکہ خیز دعوے پر زور دیا کہ مسلمان حکمرانی کے اداروں میں برے ارادے سے گھس رہے ہیں جو ہندوؤں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ آج کا بھارت اب ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا ہے۔ مسلمانوں پر ہونے والے ان ہمہ جہتی حملوں میں ہمیشہ کی طرح بالی ووڈ بھی پیش پیش رہا اور اب ’’کشمیر فائلز‘‘ بنا ڈالی جو بھارت میں اسلاموفوبیا کی واضح دلیل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نوے کی دہائی میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پنڈتوں نے بہت زیادہ اذیتیں برداشت کیں، لیکن تصویر کا ایک رخ دکھا کر پوری امت مسلمہ کو بدنام کرنے سے بالی ووڈ مزید بے نقاب ہوگیا۔ کشمیر کے اس ہولناک دور کو تناظر میں رکھتے ہوئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران RAW کے سابق چیف اے ایس دولت نے کہا کہ اس عرصے کے دوران کشمیر میں دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے گئے 1724 افراد میں سے 89 کشمیری پنڈت تھے اور پنڈتوں کی بڑی تعداد کو کشمیر سے ہجرت کرنی پڑی۔ اے ایس دولت نے مزید کہا ’’اس اعداد و شمار کو نقل کرنے کا مقصد پنڈتوں کی بے جا تکالیف کو کم شمار کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اس گھڑی میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ماری گئی‘‘۔ درحقیقت یہ فلم نہیں بلکہ آر ایس ایس و بی جے پی کا مسلمانوں کے خلاف ایک اہم منصوبہ ہے۔ یہ فلم ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لئے ایک جنگی فریاد ہے۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بھی اسلامو فوبیا کے یکے بعد دیگرے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس صوبہ میں تمام ریاستوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی جو چار کروڑ سے زائد ہے۔ ریاست کے وزیراعلٰی یوگی ادیتہ ناتھ نہ صرف ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے بلکہ وہ فیصلے بھی اسی سوچ کے تحت کرتے ہیں۔ اس حکومت نے ریاست میں مدارس کے سروے کا حکم بھی دیا ہوا ہے جہاں بڑے بڑے اور شہرہ آفاق مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ علماء لکھنو، مدرسہ اصلاح میر، اعظم گڑھ، مظاہرالعلوم سہارنپور وغیرہ واقع ہیں۔ آزادی کے فوری بعد اردو ذریعہ تعلیم اچانک ختم کر نے کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں مدرسے معرض وجود میں آئے ہیں اور پورے ملک سب سے زیادہ مدارس اسی ریاست میں ہیں۔ چنانچہ سروے کے فیصلہ نے مسلمانوں میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کردی ہے۔ جمعیت علماء ہند نے مدارس کے تحفظ کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ کی مسجد اور دیگر مقامات کی مسجدوں پر مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1142200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش