1
Sunday 16 Jun 2024 21:36

حج ابراہیمی، غزہ کے جلادوں سے بیزاری کا اظہار

حج ابراہیمی، غزہ کے جلادوں سے بیزاری کا اظہار
تحریر: غلام حسین اسلامی فرد
 
1)۔ حج کی الہی سیاسی عبادت روحانی وعدہ گاہ اور سراسر نور ہے جو مسلمانوں اور عالم بشریت کیلئے دین مبین اسلام کی روحانی یادگار ہے۔ یہ عبادت عرفات اور اس کے بعد مشعر الحرام میں ٹھہرنے اور اس کے بعد عید قربان کے اعمال انجام دینے سے انجام پاتی ہے۔ حج، فردی لحاظ سے دیگر تمام عبادات میں عارفانہ ترین عبادت ہے جبکہ سماجی اور معاشرتی لحاظ سے تمام عبادات میں سے سب سے زیادہ معاشرتی اور اجتماعی عبادت ہے۔ اس سال حج خاص حالات میں منعقد ہوا ہے۔ عرفات کے صحرا میں مشرکین سے بیزاری کی تقریب منعقد ہوئی اور ایرانی حاجیوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر کے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ اسی طرح انہوں نے دنیا والوں پر زور دیا کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی بچوں اور خواتین کا قتل عام روکنے کیلئے موثر اقدامات انجام دیں۔
 
2)۔ ولی امر مسلمین جہان امام سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے حج کی مناسبت سے اپنے پیغام میں اس عظیم عبادت کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور ان کیلئے قوت قلب کا باعث قرار دیا جبکہ ساتھ ساتھ اسے اسلام دشمن عناصر کے دل میں خوف اور وحشت پیدا ہونے کا سبب بھی جانا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے جلادوں سے برائت اور بیزاری کا اظہار صرف حج کے ایام تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ دنیا بھر میں اور تمام ایام میں زور و شور سے جاری رہنا چاہئے۔ رہبر معظم انقلاب نے اپنے پیغام میں فرمایا: "مومن حاجیان گرامی، چاہے ایرانی اور چاہے غیر ایران، جہاں کہیں بھی ہیں قرآن کریم کی اس منطق کو پوری اسلامی دنیا تک پھیلا دیں۔ آج فلسطین کو اس کی ضرورت ہے، وہ اسلامی دنیا کی حمایت کا محتاج ہے۔"
 
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا: "اسلامی جمہوریہ ایران کسی کا منتظر نہیں رہے گا لیکن اگر دیگر مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتیں بھی ہمارے ہاتھ میں ہاتھ ملاتی ہیں اور ہمارا ساتھ دیتی ہیں تو اس کا اثر بہت زیادہ ہو جائے گا اور فلسطینی عوام کی یہ ناگفتہ بہ حالت مزید جاری نہیں رہے گی۔ یہ ذمہ داری ہے۔" انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رح کی نظر میں بھی حج میں مشرکین سے بیزاری کا اظہار دراصل ایک تجدید عہد ہے اور کفر و شرک اور بت پرستوں کے خلاف مجاہدین کی آپس میں منظم ہونے کی مشق ہے۔ مشرکین سے بیزاری صرف نعرے کی حد تک نہیں ہے بلکہ حج کے موقع پر یہ تقریب درحقیقت شیطانی طاقتوں اور شیطان صفتوں کے خلاف مجاہدین خدا کی جدوجہد کا اعلان ہے اور توحید کے بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے۔
 
اگر مسلمان خانہ کعبہ میں خدا کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار نہ کریں، جو تمام انسانوں اور خدا کا گھر ہے، تو پھر اس کا اظہار کس جگہ کریں؟ اور اگر حرم اور کعبہ اور مسجد اور محراب، خدا کے سپاہیوں اور انبیاء علیہم السلام کے حرم اور حرمت کا دفاع کرنے والوں کا مورچہ نہیں ہے تو پھر ان کی پناہ گاہ اور مورچہ کہاں ہے؟ مشرکین سے برائت اور بیزاری کا اظہار درحقیقت جدوجہد کا پہلا مرحلہ ہے اور اس کے بعد ہماری ذمہ داری کے دیگر مراحل قرار پائے ہیں جن کی انجام دہی کیلئے ہر دور اور زمانے میں مناسب انداز اور پروگرام کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے زمانے میں جب کفر و شرک کے سربراہان نے توحید کے وجود کو خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے اور اقوام کے قومی، ثقافتی، دینی اور سیاسی تشخص کو اپنی ہوس اور جاہ طلبی کا شکار بنایا ہوا ہے، ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے؟
 
3)۔ مشعر الحرام میں قدم رکھنا اور عرفات میں رات گزارنا اور منی میں ٹھہرنا دلوں میں ایسی گرمی پیدا کرتا ہے جو مسلمانوں کے درمیان ہر فرقے اور مذہب سے بالاتر ہو کر باہمی اخوت پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے۔ تمام تر اختلافات کو چھوڑ کر "حبل اللہ" کو تھامنے کیلئے الہی آمادگی عطا کرتا ہے۔ یہی اتحاد اور وحدت دراصل اسلام دشمن طاقتوں سے بیزاری کا اظہار ہے اور اس سے حج کا سیاسی پہلو عیاں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر خدا کی حاکمیت قبول کرنا اور طاغوت کی حاکمیت کو مسترد کرنا سیاسی اساس کا حامل ہے۔ حج ابراہیمی بھی الہی حاکمیت قبول کرنے اور شیطان سے گہرا تعلق رکھنے والی طاغوت کی حاکمیت مسترد کرنے کا اعلان ہے۔ دین مبین اسلام مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ الہی حاکمیت کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور طاغوتی اور غیر الہی حاکمیت سے دوری اختیار کریں۔ یہ خدا کا حکم اور مسلمانی کی شرط ہے۔
 
4)۔ حج مکمل ہونے کے بعد دنیا بھر کے حاجی اپنے گھر واپس جانے کی تیاری کرنا شروع کر دیں گے۔ حاجیان گرامی جنہیں حرمین شریفین کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے، انہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے تمام مراحل میں حج کے معنوی اور روحانی اثرات کو زندہ رکھیں اور اپنی باتوں اور کردار کے ذریعے حاجی ہونے کے مقام کی حفاظت کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل شدہ ایک حدیث ہے جس میں آپ ص فرماتے ہیں: حاجی کے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے ملاقات کریں، اسے سلام کریں اور اسے گلے لگائیں اور اس سے اپنے لئے مغفرت طلب کرنے کی درخواست کریں کیونکہ وہ بخشا جا چکا ہے۔ اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام بھی لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ حاجیوں سے گلے ملیں اور ان کا احترام کریں تاکہ ان کے ثواب میں شریک ہو سکیں۔ مختلف احادیث میں حج اور عمرہ کرنے والوں کو خدا کا مہمان قرار دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1142104
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش