0
Saturday 15 Jun 2024 15:55

فرانسیسی اخبار لی فگارو میں چھپنے والے رون جیرارڈدہ کے تجزیئے سے اقتباس

فرانسیسی اخبار لی فگارو میں چھپنے والے رون جیرارڈدہ کے تجزیئے سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
اتوار 26 مئی 2024ء کو اسرائیلی بمباری کے بعد رفح شہر میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں خیموں کو جلانے کی تصاویر نے تمام عالمی رائے عامہ کو چونکا دیا، جو عملی طور پر میڈیا جنگ میں اسرائیلی حکومت کی ناکامی کا  واضح ثبوت تھا۔ عصری جنگوں میں، باقاعدہ اور بے قاعدہ دونوں جنگوں میں، میڈیا وارفیئر کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ سوشل نیٹ ورکس پر بیک وقت روایتی کیمروں کے ساتھ ساتھ سمارٹ فونز کے وسیع استعمال کی وجہ سے اب جدید جنگیں خفیہ نہیں رہیں۔ دسمبر 1937ء میں شاہی جاپانی فوجیوں کی بربریت اور نام نہاد "نانکن حملے" کی خبروں کو مغربی ممالک تک پہنچنے میں کئی ہفتے لگ گئے، لیکن آج فلسطینی شہریوں کے قتل عام کو فوری طور پر دنیا میں نشر کیا جاتا ہے اور اسی دن بین الاقوامی برادری کا ردعمل بھی سامنے آجاتا ہے۔

میڈیا جنگ کے اہم کردار کی سب سے واضح مثال 1964ء سے 1975ء تک کی ویتنام امریکی جنگ تھی۔ پہلے تو امریکی رائے عامہ اس جنگ کے حق میں تھی، لیکن جب صحافیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی خبروں میں ہیلی کاپٹروں یا جنگی جہازوں یا امریکی B-52 بمبار طیاروں سے ویتنام پر بمباری کے مناظر دکھائے گئے تو صورت حال بدل گئی۔ یہ فلمیں تفریح ​​کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ سب کو وہ ویتنامی لڑکی یاد ہے، جو نیپلم بم سے جل کر خاکستر ہوگئی تھی اور اس کا چہرہ اتنا بھیانک ہوگیا تھا کہ اس سے ڈر لگتا تھا۔ ان خبروں نے جنگ کے خلاف امریکی رائے عامہ کو ابھارا اور کانگریس کو جنوبی ویتنام کو ترک کرنے پر مجبور کیا، جس کی وجہ سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں جنوبی ویتنام میں امریکہ کو شکست دیکھنا پڑی۔

آج یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی جنگ میں میڈیا اور اطلاعات کی جنگ ہار چکا ہے۔ اتوار 26 مئی 2024ء کو اسرائیلی بمباری کے بعد ایک پناہ گزین کیمپ میں خیموں کو جلانے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی، جس نے ویتنام کی جنگ میں نیپلم بموں سے جل کر ہلاک ہونے والی ویتنامی لڑکی کی طرح کام کیا۔ اس کارروائی سے اسرائیل اسی دن حماس کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے راکٹوں کو دکھانا چاہتا تھا، تاکہ خیموں کو جلانے کی ویڈیو کا اثر زائل کرسکے، حالانکہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے راکٹوں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، کیونکہ اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم موثر تھا۔

رائے عامہ نے ان فلسطینیوں کی تصویر کو برداشت نہیں کیا، جنہیں متعدد بار بے گھر ہونے کے بعد ان کے خیموں میں زندہ جلا دیا گیا تھا، یہ متاثرین اسرائیلی حکام کی جانب سے "بفر زون" کے طور پر نامزد کردہ علاقے میں موجود تھے۔ یہ 45 اضافی متاثرین 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک ہونے والے 36,000 فلسطینی متاثرین میں شامل کیے گئے تھے۔ فرانسیسی صدر نے اس اسرائیلی حملے کو "ناقابل قبول" قرار دیا۔ پیرس کا پہلا عملی فیصلہ اسرائیل کی دفاعی صنعت کو یورو سیٹرڈے نمائش سے روکنا تھا، جو 17-21 جون 2024ء تک پیرس میں منعقد ہوگی، حالانکہ ایمانوئل میکرون جنگ کے آغاز سے ہی واضح طور پر اسرائیل کے حامی ہیں۔ انہوں نے 24 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے عبرانی حکومت کے ساتھ فرانسیسی جمہوریہ کی مکمل یکجہتی پر زور دیا۔ میکرون نے یہاں تک کہ حماس کے خلاف ایک بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔

لیکن اب آٹھ ماہ کی جنگ کے بعد مغرب کی رائے عامہ میں اسرائیل کا امیج نمایاں طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے مغرب کی رائے عامہ نے ہمیشہ صیہونی حکومت کی ٹارگٹڈ کارروائیوں کی تائید کی تھی۔ جیسا کہ ماضی میں میونخ کے قاتلوں کے خلاف اور حال ہی میں غزہ یا لبنان میں حماس کے عہدیداروں کے خلاف ہونے والے آپریشن  کی۔ لیکن اب صورت حال بدلی بدلی سی نظر آرہی ہے۔ مغربی ممالک کی رائے عامہ اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ غزہ کی پٹی میں دو تہائی عمارتوں کو جہاں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، بلڈوز کر دیا جائے۔ مغربی ممالک کی رائے عامہ اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ اسرائیلی فوجی رہائشی علاقوں اور ہسپتالوں میں داخل ہوں اور عام شہریوں کو انسانی ڈھال بنا اپنا مقصد حاصل کریں۔

میڈیا وار کے ذریعے ہولوکاسٹ سے فائدہ اٹھانے والا اسرائیل اب میڈیا کی جنگ ہار چکا ہے۔ جن ممالک کے نوجوان ہمیشہ اسرائیل کے بارے میں سب سے زیادہ سازگار نظریہ رکھتے تھے، اب وہاں حالات بدل چکے ہیں۔ اب وہی نوجوان کہتے ہیں "اسرائیلی سفاک استعماری ہیں، جو بے دفاع بستیوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں۔ اب یہی جوان اسرائیل کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، کیونکہ یہ نوجوان اپنے ہی ممالک میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیوں  کے نعرے لگا رہے ہیں اور انہوں نے BDS کے نام سے اسرائیل مصنوعات کے خلاف تحریک تک شروع کر رکھی ہے۔ اب جو بائیڈن بھی، جنہوں نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے، نیتن یاہو کی حالیہ سخت حکمت عملی سے بہت ناراض ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر پر جنگ بندی کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کی جنگ میں ہمیشہ برے نہیں رہے۔ ماضی میں انہوں نے ہمیشہ اس میدان میں کامیابیں حاصل کی ہیں۔ 1948ء، 1956ء، 1967ء اور 1973ء کی جنگ میں وہ مغرب کے میڈیا اور رائے عامہ کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے۔ 1982ء میں لبنان پر حملے اور پہلی فلسطینی انتفاضہ کے وقت انہوں نے میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا اور ان جنگوں کو یہودیوں کی نجات کی جنگیں قرار دیا۔ چھ روزہ جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں پر قبضے کے ساتھ، اسرائیلیوں کی بین الاقوامی تصویر دھیرے دھیرے "جوتے پہننے والے ظالموں سے زندہ بچ جانے والوں بہادروں" میں تبدیل ہوگئی۔ یہ بات اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو اس وقت سمجھ میں آئی، جب انہوں نے فلسطینیوں کو شریک ریاست کا درجہ دینے کے لیے اوسلو معاہدے (ستمبر 1993ء) پر دستخط کیے، جبکہ اس وقت نیتن یاہو نے کھلے عام اسحاق رابن کو "غدار" کہا تھا۔ آج دنیا میں اسرائیل کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ کوئی بھی اپنے آپ سے پوچھ سکتا ہے (نیتن یاہو کی خراب حکمرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے برے عزائم کی وجہ سے) کہ کیا یہ خود نیتن یاہو نہیں ہے، جس نے غداری کی ہے اور کیا وہ وہ نہیں ہے، جسے غدار کہا جائے۔؟
خبر کا کوڈ : 1142006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش