0
Saturday 15 Jun 2024 15:21

سب سے بڑی قربانی

سب سے بڑی قربانی
تحریر: شبیر احمد شگری

عید قربان کا موقع ہے کوئی بکرے کی قربانی کر رہا ہے، کوئی بیل اور کوئی اونٹ کی۔ خدا کی راہ میں خلوص کیساتھ بڑی سے بڑی قربانی بہت اچھی بات ہے۔ لیکن آج کے معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دکھاوے کیلئے جانور خریدنے کا رواج زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ خدا کو ہمارے جانور کا نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت نہ کھال۔ اصل میں تو یہ سنت ابراھیمی ہے جو ہمیں ادا کرنی ہے۔ لیکن آج کے دور میں سنت ابراہیمی کا فلسفہ معدوم ہوتا نظر آ رہا ہے، اس صورت میں کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے نفس کی قربانی دی تھی، اور خدا کی خوشی کی خاطر اپنے نفس اور خواہش کو دبا کر اپنے عزیز بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی تھی۔ اللہ نے اپنے حبیب کی قربانی قبول کرتے ہوئے ان کے لخت جگر کی جگہ پر دنبہ لٹا کر اس قربانی کو وقتی طور پر تو قبول کرلیا۔ لیکن اس قربانی کی تکمیل کربلا میں اس وقت ہوئی جب نسل ابراھیمی میں سے ہی ایک اور بیٹے حضرت حسین علیہ السلام کو ذبح کر دیا گیا۔

ان دونوں قربانیوں میں یہ فرق تھا کہ حضرت ابراھیم نے خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تھا۔ لیکن کربلا میں انسانی ہوس غرور اور تکبر کی خاطر امام حسین کو بھوکا بیاسا کربلا کی تپتی ریت پر ذبح کر دیا گیا۔ وہاں منٰی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا لیکن کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اپنا پورا گھرانہ اور اصحاب قربان کر دیئے۔ ان قربانیوں میں چھ ماہ کے حضرت علی اصغر علیہ السلام سے لیکر بوڑھے حبیب ابن مظاہر تک شامل تھے۔ جس پر آج تک نسل انسانی شرمندہ ہے۔ آج کربلا میں قبر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نزدیک وہ مقتل گاہ موجود ہے، جہاں امام کو ذبح کیا گیا۔ شقی سے شقی ترین انسان کا دل بھی یہاں خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

یہ وہ حج کا زمانہ تھا جب حاجی جنت کی تلاش میں مکہ جا رہے تھے اور جنت کا سردار اسلام بچانے اور اپنا کنبہ اور اصحاب قربان کرنے کربلا جا رہا تھا۔ اس سے کیا سبق ملتا ہے۔ کہ خدا کی خوشنودی کیلئے اپنی محبوب سے محبوب ترین چیزوں کی قربانی دے دیں۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انا غرور و تکبر ہے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر بلکہ کبھی تو کوئی بات بھی نہیں ہوتی تو خصوصاً ہم نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے رشتہ داروں عزیزوں سے قطع رحمی کر رکھی ہے۔ حالانکہ صلہ رحمی کے بارے میں خدا اور رسول کے واضح احکامات ہیں۔ لیکن ہم اپنی انا، تکبر اور ہوس کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔ خود کو دوسرے سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ  خدا کی نظر میں جو تقویٰ میں بڑھ کر ہے وہ افضل ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ہوا جو میں سر بسجدہ، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں


اپنی روح کو انا اور غرورو تکبر کے ہاتھوں بیچ کر نمازوں اور سجدوں کا کیا فائدہ۔ کیا ہم نے ابلیس سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں یا سجدے کئے ہیں؟ اسی غرور تکبر اور انا کی بیماری نے ابلیس کو کیا سے کیا بنا دیا۔ تو ہم کیا چیز ہیں۔ ہم کیوں اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں کیوں خود کو حقیقت کی نظر سے نہی دیکھتے۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے، اور ہڈی سے سنتا ہے، اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔ یہ ہے ہماری حقیقت۔ جس جسم اور طاقت پر ہم گھمنڈ کرتے ہیں اس نے دنوں کے اندر گھل جانا ہے، صرف ایک بیماری لگنے کی دیر ہے۔ جتنا بڑے سے بڑا نامی گرامی انسان ہو جو اپنے نام پر فخر کرتا ہے۔ جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا وہی نام چھن جاتا ہے۔ میت کو غسل دو ۔ میت کو اٹھاو۔ نام اس دنیا میں ہی ختم۔ اور طاقت کے بل بوتے پر جس جسم سے کمزوروں پر رعب ڈالتا تھا غریبوں پر ظلم کرتا تھا اب وہی جسم ہلا نہیں سکتا اور دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔

گلنے سڑنے کے خوف سے اپنے عزیز رشتہ دار دفنانے میں جلدی کریں گے۔ تو ہم کیا ہیں؟ کس چیز پر ہمیں فخر ہے؟۔ ہماری حیثیت کیا ہے؟۔ یہ بات سمجھ آ جائے تو شاید عزیز رشتہ داروں کے درمیان کتنی غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ غلیاں سب سے ہوتی ہیں اپنے آپ کو فرشتہ سمجھ لینے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا۔ یہ انسان کے عمل پر ہے کہ چاہو تو فرشتوں سے افضل ہو جائے  نہیں تو جانوروں سے بھی گر جائے۔ لیکن کیا کریں کہ ہماری اکڑ جاتی ہی نہیں۔ ہماری گردن میں انا کے اتنے مظبوط سریے ڈل چکے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ بات قربانی  اور جانوروں کے ذبح ہونے کی ہورہی تھی ایک آدمی گھر میں بکری پالنے کے لئے لے آتا ہے۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے" غم نداری بُز بخر" یعنی اگر آپ کو کوئی غم نہیں تو بکری خرید لیں۔ کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ بکری نے میں میں کر کے جینا حرام کر دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس آدمی کے ساتھ بھی ہوا جب سے اس نے بکری گھر میں لائی اس کا جینا دوبھر ہوگیا اب چاہے وہ اس کو گھاس ڈالتا خیال رکھتا سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن بکری نے میں میں نہ چھوڑی۔

آخر تنگ آمد بجنگ آمد کے بقول آدمی نے چھری اٹھائی اور بکری کو ذبح کر ڈالا، کئی دن گوشت کے مزے اڑائے کافی دنوں بعد بکری کی سوکھی انتڑی سے اس نے ایک تار بنایا اور اس کو بجانے کیلئے جیسے ہی انگلی لگائی تو آواز آئی، توں۔۔۔۔ وہ شخص ہنس پڑا اور بولا اب توں۔۔۔؟ تیری تو میں میں ہی نہیں جاتی تھی، اب جب سب کچھ ختم ہوگیا تو توں۔۔۔۔؟ یہ ایک بہت سبق آموز حکایت ہے۔ جتنا مرضی میں میں کرلیں ایک دن ختم ہو جانی ہے اس لئے۔ آئیں سب سے بڑی قربانی کریں انا کی، نفس کی، ہوس کی، جس سے خدا بھی خوش ہو اور مخلوق خدا بھی۔ لوگوں کے کام آئیں، صلہ رحمی کریں، اپنے رشتہ داروں، آس پاس لوگوں، عزیزوں، دوستوں کا خیال رکھیں، دنیا خوبصورت بن جائے گی اور شاید آخرت بھی۔
خبر کا کوڈ : 1141911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش