0
Thursday 13 Jun 2024 23:41

انصاراللہ کی کامیابیاں

انصاراللہ کی کامیابیاں
تحریر: طالب الحسنی
یمنی تجزیہ نگار

2015ء سے اب تک، یعنی 2024ء کے وسط تک، تقریباً ایک دہائی مکمل ہونے کو ہے۔ اس دوران انصاراللہ کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز غیر ملکی جماعتوں کے لیے کام کرنے والی جاسوسی کی کارروائیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اسی تناظر میں حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی اور صیہونی حکومت کی بدنام زمانہ تنظیم موساد کے ساتھ تعاون کرنے والے جاسوسی نیٹ ورک کے عناصر کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی ہے۔ انصاراللہ نے اس نیٹ ورک کو پکڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اس تناظر میں جو بات بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ یمن کی انقلابی جماعت انصاراللہ ملک کی سکیورٹی کو کنٹرول  کرنے میں کامیاب رہی اور اس مدت میں اس نے تمام پیچیدگیوں پر قابو پانے اور جاسوسی کی کارروائیوں پر غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کی۔

2012ء کے وسط سے 2014ء کے وسط تک یمن میں سیاسی اور علمی شخصیات اور مذہبی اسکالرز کی ایک قابل ذکر تعداد کے علاوہ تقریباً 70 اہم  افراد کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ، القاعدہ کی طرف سے بم دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ القاعدہ کے جرائم کا یہ حجم گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا اور القاعدہ ان جرائم کی ذمہ داری بھی قبول کرتی تھی۔ مبصرین ان پیش رفتوں کو 2011ء (عرب بہار) میں حکومت کے خاتمے، فوج اور سکیورٹی اداروں کے ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ اور القاعدہ کے منظر عام پر آنے کا سبب بننے والے اندرونی تنازعات کے نتائج کا حصہ سمجھتے تھے۔

ایسا لگتا تھا کہ اس عارضی دور سے نکلنے کا تعلق حکومت کو بہتر کرنے اور پھر اسے حفاظتی صلاحیتوں کے حامل ملک میں تبدیل کرنے سے ہے۔ بہرحال اس کی کئی وجوہات ہیں، لیکن اس وقت ان وجوہات کی وضاحت اس مضمون میں شامل نہیں ہے۔ جب ستمبر 2014ء میں انصاراللہ نے یمن کے دارالحکومت صنعاء کا کنٹرول سنبھالا تو چند ماہ کے بعد مارچ 2015ء میں ریاض کی مداخلت اور واشنگٹن کی حمایت سے انصاراللہ کا تختہ الٹنے کا منصوبہ شروع ہوا۔ اس صورت حال میں سکیورٹی کی صورتحال کیا ہوگی، اس کا تصور ہی انتہائی بھیانک ہے۔؟

انصاراللہ کو لازمی طور پر اس پیچیدہ چیلنج پر قابو پانا تھا، کیونکہ جنگ کے وسط میں سکیورٹی کا مسئلہ اس انقلابی تحریک کے خاتمے یا انتشار کے دور میں داخل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔ (یہ مسئلہ عرب اتحاد کے سب سے نمایاں اہداف میں سے ایک تھا، جس کی قیادت سعودی عرب کے پاس تھی اور صنعا کی سکیورٹی کی تباہی سعودی اتحاد کی فوجی حکمت عملی کا حصہ تھا)۔ لیکن کیا انقلابی تحریک اور اس کے اجزاء، جو بنیادی طور پر قبائلی اور مذہبی تھے، تنازعات کے درمیان سکیورٹی پر قابو پا سکتے تھے؟ یقیناً یہ ایک مشکل امر تھا۔ اس صورت حال میں انصاراللہ کو ایک پیچیدہ چیلنج پر قابو پانا تھا، کیونکہ جنگ کے دوران سکیورٹی کا خاتمہ اس انقلابی تحریک کے خاتمے یا افراتفری کے دور میں داخل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔

بیرونی جارحیت کے ساتھ ساتھ افراتفری اور عدم تحفظ نے یمن کے لوگوں سے دن رات کا سکون چھین لیا تھا۔ یہی چیلنج تھا، جس سے انصاراللہ نے نمٹنا تھا۔ تجربہ کار عناصر اور نئے رضاکاروں کے ساتھ  مل کر اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے انصاراللہ میدان عمل میں آئی اور اس نے یمن کے اندر سکیورٹی چیلنجوں اور بیرونی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ انصاراللہ کے حفاظتی طریقہ کار کا مقصد حکومت کو گرنے سے بچانا، عوامی اداروں کی حفاظت، دراندازی کرنے والے گروہوں کو روکنا، جاسوسی تنظیموں کو گرفتار کرنا اور شہریوں کی حفاظت کرنا تھا۔ قومی اور مقامی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ عمل اور نقطہ نظر وزارت داخلہ کے فرائض کا ایک محدود حصہ ہوتا ہے۔

یہیں سے جاسوسی، تخریب کار، دہشت گردی اور افراتفری کے مراکز سے نمٹنے کا عمل شروع ہوا۔ سکیورٹی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے عمل میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا ناممکن نظر آتا تھا اور کئی بار انصاراللہ کو سخت ترین  مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی صلاحیتوں اور تجربے نے مطلوبہ نتائج دیئے۔ دشمن کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی تاریخ اور اپوزیشن کے پاس کیا تھا اور کیا ہے، کے درمیان موازنہ کرکے انسان کے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انصاراللہ نے جاسوسی کے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ کیسے نمٹا ہوگا۔؟ معلومات کے اس عمل میں، انصاراللہ تحریک کو ریاض کی حمایت یافتہ مستعفی حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے نمٹنا پڑا، جن کے متعصبانہ اہداف، اثر و رسوخ اور اندرونی عناصر وغیرہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔

انصاراللہ مخالف عناصر کو عرب اتحادی ممالک کی انٹیلی جنس خدمات کا بھی تعاون حاصل تھا، ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور سب سے بڑھ کر، ایف بی آئی اور امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) (جن کے نیٹ ورک یمن اور اس کے ارد گرد اثر و رسوخ رکھتے ہیں) وغیرہ شامل تھے۔جنگ کے پہلے مہینوں میں صنعاء اور بیشتر صوبوں پر تقریباً روزانہ بمباری کی جاتی تھی، جبکہ انقلابی تحریک انصاراللہ کی افواج اور عرب اتحادی گروپوں کے درمیان لامحدود محاذوں پر فوجی جھڑپیں ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود انصار اللہ کی سکیورٹی فورسز نے حالات کو مستحکم کر دیا، قتل و غارت گری رک گئی اور ابتدائی مسلسل مظاہروں کے بعد مزید افراتفری کی کوئی خبر سامنے نہ آئی۔

بہرحال اب پورے یمن میں امن ہے اور لوگوں کی زندگی معمول کے مطابق  چل رہی ہے۔ عوام اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ جنگ کے شدید نقصانات اور بربادی کے باوجود یمنی عوام انصاراللہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کی ایک مثال صنعاء میں اسرائیل مخالف متعدد ملین مارچ اور دوسری مثال بحر احمر میں اسرائیل کے لیے اسلحہ اور سامان لے جانے والے جہازوں پر یمن کی تحریک مقاومت کے حملے ہیں۔ انصاراللہ تمام تر مشکلات کے باوجود اہل غزہ کی حمایت میں امریکہ و اسرائیل کے حواریوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ انصاراللہ داخلی جاسوسوں کے خلاف بھی کامیاب ہے اور ان شاء اللہ بیرونی دشمنوں کو بھی شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔ ان شاء اللہ
خبر کا کوڈ : 1141790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش