1
Friday 14 Jun 2024 19:36

عالمی لبرل نظام کا خاتمہ

عالمی لبرل نظام کا خاتمہ
تحریر: علی احمدی
 
یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزپ بوریل نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر برتر طاقت کا مقام کھو چکا ہے اور اب یورپ کو اپنی سکیورٹی کیلئے امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا: "میری نظر میں اب وہ ورلڈ آرڈر موجود نہیں جو سرد جنگ کے بعد وجود میں آیا تھا اور ہم سب کو اس کی عادت ہو گئی تھی۔ امریکہ برتر طاقت کے طور پر اپنا مقام کھو چکا ہے اور 1945ء کے بعد حکمفرما ہونے والا ورلڈ آرڈر زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔" جوزپ بوریل نے یوکرین جنگ میں روس کی ممکنہ فتح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم اب تک امریکہ کی سکیورٹی چھتری پر بھروسہ کر رہے تھے لیکن یہ چھتری شاید ہمیشہ کھلی نہ رہے اور میرا عقیدہ ہے کہ ہم اپنی سکیورٹی کو امریکہ کے الیکشن سے گرہ نہیں لگا سکتے جو ہر چار سال ایک بار منعقد ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی کو مزید ترقی دینا ہو گی۔"
 
زوال کا سلسلہ
اگرچہ عملی طور پر 1970ء کے عشرے میں ویت نام میں امریکہ کی واضح شکست سے ہی اس کی عالمی پوزیشن اور خارجہ سیاست میں زوال کا آغاز ہو گیا تھا لیکن جرج ڈبلیو بش کی مدت صدارت اور اس کے یکطرفہ اور خودسر اقدامات جیسے اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود افغانستان اور عراق پر فوجی جارحیت کے نتیجے میں اس زوال میں شدت آ گئی تھی۔ 20 جنوری 2017ء کے دن ڈونلڈ ٹرمپ کا نئے امریکی صدر کے طور پر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر امریکہ کے یکطرفہ اقدامات میں تیزی آئی اور یوں عالمی طاقتوں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات تناو کا شکار ہو گئے۔ ٹرمپ کی مدت صدارت کو امریکہ کے زوال میں تیزی کا دورانیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں خاص طور پر خارجہ سیاست کے میدان میں ٹرانس اٹلانٹک تعلقات میں کمزوری نیز چین اور یورپ سے امریکہ کی تجارتی جنگ کا آغاز ہوا۔
 
جو بائیڈن کے دور میں اگرچہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کی بحالی اور یورپ کو مختلف سیاسی میدانوں میں مشترکہ اقدامات کے ذریعے امریکہ کے ساتھ ملانے کی کوششیں انجام پائیں لیکن روس اور چین سے کشیدگی کے باعث عالمی سطح پر واشنگٹن بہت زیادہ مشکلات اور چیلنجز سے روبرو ہو چکا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیاں اور باہر کے بدلتے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کی طاقت زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ کی اقتصادی ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "دوسرے ملک بہت سے شعبوں میں امریکہ سے آگے نکلتے جا رہے ہیں۔" جو بائیڈن نے اعتراف کیا کہ اگرچہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے لیکن ایک ملک ہونے کے ناطے اپنا مقام کھو رہا ہے۔ یہ بیان اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے جسے امریکی زوال کہا جاتا ہے۔
 
امریکی اثرورسوخ کا زوال
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی اثرورسوخ زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ زوال نہ صرف سخت طاقت بلکہ نرم طاقت کے میدان میں بھی انجام پا رہا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک امریکہ سے بیزار ہیں۔ گذشتہ چند عشروں میں امریکہ کے بارے میں عالمی رائے عامہ بہت زیادہ تبدیل ہوئی ہے اور منفی ہو گئی ہے۔ یوں امریکہ جو کئی عشرے پہلے دنیا کا مقبول ملک جانا جاتا تھا آج دنیا کے منفور ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا مختلف امریکی محققین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور معروف اسٹریٹجسٹ، ہنری کیسنجبر نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے عالمی سطح پر امریکہ کی مقبولیت اور اثرورسوخ میں زوال کا اعتراف کیا اور واضح کیا کہ دنیا کے ممالک امریکہ کی جانب سے پیش کردہ موقف کو حق پر مبنی اور خود غرضی سے عاری تصور نہیں کرتے۔
 
ہنری کیسنجر نے کہا: "امریکہ خود کو خود غرض نہیں بلکہ مصلح اور عادل سمجھتا ہے اور عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کا نقطہ نظر اور اس کی منطق غالب ہونی چاہئے جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ در حقیقت، 1990ء کے عشرے کی ابتدا میں امریکی صدر جرج بش سینیئر کے دعوے کے برعکس جس نے کہا تھا کہ آج امریکہ دنیا پر واحد مسلط طاقت ہے، عمل کے میدان میں نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ زوال کی جانب گامزن ہے۔ امریکہ کی حریف دو بین الاقوامی طاقتوں یعنی روس اور چین کی جانب سے عالمی سطح پر ملٹی پولر نظام نافذ کرنے کیلئے انجام پانے والی پالیسیوں اور اقدامات کے تناظر میں ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ امریکہ کی روز بروز کمزور ہوتی اقتصادی اور فوجی طاقت نیز امریکی معاشرے میں بڑھتے اندرونی اختلافات اور دو لخت ہوتا امریکی معاشرہ بھی اسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔
 
طاقت کی ایشیا منتقلی
عالمی نظام کی تبدیلی سے متعلق ایک اور اہم نکتہ، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور حتی علمی طاقت کی مغرب سے براعظم ایشیا منتقلی کا عمل ہے۔ یہ حقیقت اس وقت مزید واضح ہوتی ہے جب ہم اکیسویں صدی میں مختلف میدانوں جیسے اقتصادی، تجارتی، ٹیکنالوجی، سیاسی، ثقافتی وغیرہ میں ایشیا – بحر اوقیانوس خطے کی روز بروز بڑھتی اہمیت پر توجہ کرتے ہیں۔ اسی طرح علاقائی اور عالمی ایشوز میں چین کا بڑھتا کردار اور دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں فروغ بھی اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ نئی ابھرنے والی اقتصادی طاقتوں کا اتحاد جی 20 روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی چین ہے جو دنیا کی پہلی اقتصادی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1141723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش