متعلقہ فائیلیںشاعر: سید تنویر حیدر
جل رہا تھا گلستاں اور باغباں خاموش تھا
آسماں تک تھا دھواں اور آسماں خاموش تھا
لٹ رہی تھی سامنے سب کے متاعِ کارواں
اور اس عالم میں میرِ کارواں خاموش تھا
وہ جو تھی موجِ رواں وہ دم کشیدہ تھی کہیں
وہ سمندر تھا کبھی جو بے کراں، خاموش تھا
دل کو دہلاتی تھی جس لشکر کے قدموں کی دھمک
مصلحت کی وہ بھی پہنے وردیاں، خاموش تھا
اِس طرف پردے کے جس دم شورِ محشر تھا بپا
اُس طرف پردے کے اس دم اک جہاں خاموش تھا
ہم جہاں رہتے تھے وہ شہرِ خموشاں تھا کوٸی
اس نگر میں جو جہاں تھا وہ وہاں خاموش تھا
سامنے تنویر اس کے سارے نامے رکھ دیئے
پر جو ٹھہرا تھا ہمارا میزباں، خاموش تھا