0
Wednesday 31 Jul 2024 21:20

گوادر میں حالیہ ’بلوچ راجی مچی‘ و صورتحال سے متعلق سماجی کارکن بیبرک بلوچ سے خصوصی گفتگو

گوادر میں حالیہ ’بلوچ راجی مچی‘ و صورتحال سے متعلق سماجی کارکن بیبرک بلوچ سے خصوصی گفتگو
بیبرک بلوچ بلوچستان کے ضلع سوراب سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے فعال رکن ہیں۔ جو اس وقت کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ وہ جامعہ بلوچستان سے زولوجی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہونے والے مظاہروں، بلخصوص گوادر میں حال ہی میں منعقد ہونے والے 'بلوچ راجی مچی' و مجموعی صورتحال کو سمجھنے کے لئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: حال ہی میں ہم نے گوادر میں 'بلوچ راجی مچی' کا اجتماع دیکھا، اس حوالے سے بتائیں۔ راجی مچی کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا تھے؟
بیبرک بلوچ: جی بلوچ راجی مچی اور اسکا مقصد یہ تھا کہ جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں۔ ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر ایک چھتری کے نیچے لاکر صرف اور صرف یہی مطالبہ کرنا کہ بلوچ نسل کشی اب بند کی جائے۔ اس حوالے سے گوادر میں 28 (جولائی 2024) تاریخ کو یہ مجمع اکھٹا کیا گیا، اسکی اصل وجہ یہی تھی کہ جس طرح مختلف طریقوں سے بلوچ نسل کشی کی جا رہی ہے، اسکے خلاف ایک آواز بلند کی جائے۔
 
اسلام ٹائمز: راجی مچی کے اجتماع کے لئے ساحلی شہر گوادر کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
بیبرک بلوچ: راجی مچی کے لئے جو ساحلی شہر گوادر کا انتخاب کیا گیا تھا اس میں صرف یہی موٹیو (مقصد) تھا کہ گوادر کو آج کل بلوچوں کے لئے 'نو گو ایریا' بنایا گیا ہے۔ جس طرح وہاں انسویسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ اس پر ہمارے جو سیاسی خدشات ہیں وہ تو اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن ہمارے لوگوں کو وہاں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ گوادر پر ایک حساب سے قبضہ کیا جا رہا ہے، اور اسکو نو گو ایریا بنایا جا رہا ہے۔ اسی لئے وہاں کا انتخاب کیا گیا۔
 
اسلام ٹائمز: صوبائی دارالحکومت میں ہاکی گراؤنڈ کو احتجاج کیلئے مختص کیا گیا ہے، کیا بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاجی مظاہروں کا طریقہ کار بدلے گی؟
بیبرک بلوچ: جی! ہمیں پہلے بھی آفر (پیشکش) کی گئی تھی کہ آپ ہاکی گراؤنڈ میں آکر احتجاج کریں۔ ہاکی گراؤنڈ سے تو اچھا ہے کہ ایک چار دیواری میں بند رہنے سے ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر احتجاج کریں۔ احتجاج جب بندہ اداروں سے انصاف نہیں ملتا، جب آپ کے بنائے ہوئے ادارے ناکام ہو جاتے ہیں انصاف دینے میں تو مجبوراً لوگ سڑکوں پر آ جاتے ہیں، سڑک اور ایک گراؤنڈ میں بہت فرق ہوتا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسائل سے ملک کے بیشتر افراد واقف ہیں، آپ ان مسائل کا کیا حل سمجھتے ہیں؟
بیبرک بلوچ: جی دیکھیں! بلوچستان میں لاپتہ افراد کا جو مسئلہ ہے وہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہم یہ جدوجہد کر رہے ہیں کہ جتنے بھی لوگ لا پتہ ہیں ان کو بازیاب کیا جائے، منظر عام پر لایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں پر دن بدن انکی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کو غیر آئینی طور پر جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز جو اس طرح کے عمل میں شریک ہیں، انکو حکومت کے آئین کے تابع کرنا ہوگا، انکو کورٹس (عدلیہ) کا تابع کرنا ہوگا، تاکہ وہ غیر آئینی عمل سے دور رہیں۔
 
اسلام ٹائمز: حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس حوالے سے صوبائی حکومت پر اعتماد ہے؟
بیبرک بلوچ: حکومت کی جانب سے جو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی پر ہمیں بلکل بھی اعتماد نہیں ہے۔ کیونکہ اس کمیٹی میں جو لوگ شامل ہیں، وہ بارہاں لاپتہ جو افراد ہیں، جبری گمشدگیاں ہیں، انکو ڈینائی (مسترد) کرتے رہے ہیں۔ اردو کی ایک مثال ہے کہ 'دودھ کی رکھوالی بلی سے کروایا'، یہ اس کے مترادف ہے۔
 
اسلام ٹائمز: ظاہراً اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تنظیمی ڈھانچہ نہیں بنا ہے، مذاکرات کی صورت میں کس پر اعتماد کا اظہار کریں گے؟
بیبرک بلوچ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بن چکا ہے، لیکن وہ اب تک ہم نے پبلک (اعلان) نہیں کیا۔ لیکن بن چکا ہے۔ اور مذاکرات کے لئے ہم نے پہلے بھی کہا تھا، پیشکش کی تھی کہ ہماری یہ کچھ ڈیمانڈز (مطالبات) ہیں، جیسے ہی یہ پورے ہوتے ہیں ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے باقاعدہ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ میں گوادر میں مذاکرات کے لئے تیار ہوں، اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہے تو 'موسٹ ویلکم'۔
 
اسلام ٹائمز: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک میں خواتین پیش پیش نظر آتی ہیں۔ اسکی کیا وجوہات ہیں؟
بیبرک بلوچ: خواتین جو پیش پیش ہیں یا ایکٹیو (فعال) ہیں، جو آپ کو نظر آتی ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ بلوچ ایک سیکولر قوم ہے۔ ہمیشہ جو ہے جینڈر ایکیلٹی (صنفی مساوات) پر ہم نے کام کیا ہے اور اس کے حامی رہے ہیں۔ ہم نے اپنی خواتین کو بھی اتنا ہی حق دیا ہے جتنا ایک مرد کا اس معاشرے میں کردار ہے۔ تو اس سلسلے میں ہماری خواتین بھی لیڈ کر رہی ہیں اور آپ کو نظر آئے گا کہ کافی تعداد میں ہوتی ہیں اور لیڈرشپ میں بھی خواتین کا بھی بہت بڑا کردار ہے بی وائی سی میں۔

(واضح رہے کہ اسلام ٹائمز کا مہمان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ادارہ)
خبر کا کوڈ : 1151127
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش