اداریہ
بعض علمائے اخلاق تہجد اور نماز شب کو صرف نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص نہیں سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مندرجہ بالا عبادات کے علاوہ بعض اعمال جیسے لوگوں کی خدمت کرنا، رات کو مطالعہ کرنا اور غوروفکر کرنا بھی رات کی عبادات کی مثالیں ہیں، جس طرح امام صادق علیہ السلام عشاء کی نماز پڑھتے اور رات ہونے کے بعد روٹی، گوشت اور پیسے کا ایک تھیلا لے جاتے اور اسے غریبوں میں تقسیم کرتے۔ تاہم، علماء نے تہجد اور رات کی نماز ادا کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اسے عبادات کا مرکز و محور قرار دیا ہے۔ امام باقر (ع) نے نقل کیا ہے کہ خدا کے پاس ایک نادی اور پکارنے والا ہے، جو صبح کے وقت پکارتا ہے کہ کیا کوئی دعا کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ دیگر احادیث اور بزرگانِ اسلام کی روایات میں رات کی نماز کو مومن کی عزت اور آخرت کی زینت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، گویا مال اور اولاد دنیا کی زینت اور نماز شب آخرت کی زینت ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وصیت میں امیر المومنین سے فرمایا: "تمہارے لئے نماز شب کا پڑھنا لازم ہے۔" دوسری روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص نماز شب کی آخری رکعت وتر میں ستر مرتبہ کھڑا ہو کر استغفار اللہ ربی اور اعوذ باللہ پڑھے اور یہ عمل ایک سال تک جاری رکھے تو وہ صبج کے بخشے جانے والوں میں شمار ہوگا، اس کا حساب اور مغفرت یقینی ہے۔
اسلامی روایات کے مطابق رات کی نماز ادا کرنے کے اہم روحانی اثرات کے ساتھ ساتھ مادی اور جسمانی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ نماز شب کی ادائیگی سے ابراہیم (ع) خلیلی کے مقام پر پہنچے اور خدا سے دوستی ہوئی اور جو شخص رات کی نماز میں ثابت قدم رہے گا، خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور یہ نماز اس شخص کی زندگی میں گناہوں سے بچنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ نماز شب کی نمازوں کی ادائیگی سے نہ صرف انسانی زندگی میں روحانی اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں بلکہ انسانی جسم اور قوت ارادی بھی مضبوط ہوتی ہے۔ بہت سی روایات میں روزمرہ کی عبادات کی کوتاہیوں کی تلافی، چہرے کو سنوارنے اور نکھارنے، قرض کی ادائیگی میں مدد، رنج و غم کو دور کرنے، جسم کے درد کو کم کرنے اور روزی کی ضمانت دینے کو نماز شب کی ادائیگی کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق نماز شب پڑھنے والے عذاب الٰہی کو امت پر نازل ہونے سے روکنے کے ساتھ ساتھ خود کو معاشرے میں ذمہ داری قبول کرنے اور سماجی خدمات کا ذریعہ بننے کے قابل بھی بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ مزمل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز شب پڑھنے کا حکم دیتا ہے، تاکہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، جو آپ کو جلد سونپی جائے گی۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) اگر نماز شب نہ پڑھتے تو ان کے لئے دشمنوں کی طرف سے کہی گئی لغو باتوں مثلاً شاعر، کاہن اور دیوانہ جیسے القابات کو برداشت کرنا آسان نہ تھا۔
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 79 میں اللہ تعالیٰ نے "محمود" کے مقام تک پہنچنے کو نماز شب، تہجد اور شب بیداری کے اثرات اور نتائج میں سے ایک قرار دیا ہے۔ جیسا کہ آیت کا مفہوم واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کی نماز پڑھنے اور تہجد پڑھنے والوں کو "محمود" کا درجہ دے گا۔ مفسرین نے اس منصب کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عہدہ نبی کی شفاعت کا مقام ہے۔ بعض تفسیروں میں امام باقر اور امام صادق (ع) کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ محمود کا مقام وہی ہے، جو شفاعت کا مقام ہے اور عسی این یبعثک کا جملہ اسی وجہ سے ہے کہ مستقبل میں پیغمبر کو یہ مقام دیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے یہ امکان بھی پیش کیا ہے کہ محمود کا مقام قرب الٰہی جیسا ہے اور اس قربت کے اثرات میں سے ایک شفاعت بھی ہے۔ اگرچہ اس آیت کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، لیکن اس حکم کو حکم عام بھی کہا جا سکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو ایمان کے ساتھ نماز شب ادا کرتے ہیں، ان کے لیے مقام محمود مین حصہ ہوگا اور وہ قرب الٰہی کے دربار میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح وہ شفاعت کرنے والے بن سکتے ہیں اور راستے میں تھک جانے والوں کی مدد کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر مومن اپنے ایمان کے دائرے میں شفاعت کا درجہ رکھتا ہے، لیکن اس کی بہترین مثال۔ یہ آیت بھی ہے۔
امام خمینی کے ساتھیوں اور ان کے اردگرد کے لوگوں کی بہت سی یادیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینی نماز شب کے سختی سے پابند تھے اور یہ ایک ایسی عبادت تھی، جو امام نے اپنی جوانی سے باقاعدگی اور متواتر ادا کی تھی۔ آیت اللہ فاضل لنکرانی امام کی اپنی زندگی میں نماز شب ادا کرنے کی پابندی کے بارے میں نقل کرتے ہیں: "امام کی نماز شب متواتر تھی۔ وہ ستر سال تک نماز شب کے پابند رہے۔” امام خمینی اپنے دوستوں میں دو صفات کی وجہ سے جانے جاتے تھے، جن میں سے ایک نماز شب پڑھنا تھا۔ آیت اللہ توسلی اس سلسلے میں نقل کرتے ہیں: "میں نے اپنے ایک پرانے دوست کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام کی دو خوبیاں تھیں، جو ان کے تمام دوستوں میں ممتاز تھیں: ایک یہ کہ وہ غیبت کی مجلس میں شرکت نہیں کرتے تھے اور غیبت سے سختی سے اجتناب کرتے تھے، اور دوسری یہ کہ وہ ہمیشہ نماز شب کے پابند رہے۔” امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ریا سے بچنے اور دوسروں کو اذیت دینے سے بچنے کے لیے نماز شب ادا کرتے وقت دوسروں کو بیدار ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے۔ عراق میں جلاوطنی کے دوران امام کے ساتھیوں میں سے ایک حجت الاسلام عبدالعلی قرہ ای نقل کرتے ہیں: "امام کربلا کی زیارت کے دوران ایک ایرانی کے گھر میں مقیم ہوتے، جہاں اور بھی طلبہ ساتھ ہوتے۔ آدھی رات کو امام اس طرح نماز شب کے لیے اٹھتے تھے کہ کسی کو اذیت نہ ہو۔
گرمی کے موسم میں اگرچہ سب صحن میں سوتے تھے، لیکن کسی کو امام خمینی کے جاگنے کی خبر نہیں ہوتی تھی اور میں نے جو کئی سالوں سے ان کی خدمت میں تھا، محسوس کیا کہ وہ بروقت اور چپکے سے نماز شب کے لیے اٹھتے اور کسی کو ڈسٹرب نہیں کرتے تھے۔” امام خمینی اپنی رات کی نمازوں میں عبادت اور تہجد کے علاوہ اس قدر گریہ و زاری کرتے اور بعض اوقات ان کے رونے کی شدت اس قدر ہوتی کہ خاندان کے بعض افراد خوفزدہ ہوکر جاگ اٹھتے۔ آیت اللہ بنی فضل نے تہران کے ایک عالم کی ایک یادداشت نقل کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اپنی رات کی نماز میں کتنا روتے اور گریہ کرتے تھے: وہ لکھتے ہیں کہ ہم ایک بار امام خمینی کے بیٹے مصطفیٰ کے گھر ٹھہرے اور ان سے رات گئے تک بعض علمی موضوعات پر گفتکو کی، جب سوئے تو رات کے آخری پہر میں رونے کی آواز آئی، جب میں نے آقا مصطفیٰ سے پوچھا تو انہوں نے کہا یہ میرے والد کی نماز شب میں گریہ کرنے کی آواز ہے، وہ رات کی عبادت میں مشغول ہیں اور خدا کے حضور گریہ کر رہے ہیں۔” امام کی رات کی دعائیں اور گریہ ان کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا، حتی جب وہ بیمار تھے۔ آیت اللہ توسلی اس سلسلے میں ایک دلچسپ یاد نقل کرتے ہیں: "آپ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے تھے۔ ان کا ذکر، دعائیں، مناجات اور آدھی رات کا رونا کبھی نہیں رکا۔
ان کی زندگی کے آخری لمحات کو اگرچہ فلمایا گیا ہے، لیکن اس کے بہت سے حصے ابھی تک نشر نہیں ہوئے ہیں۔ اگر یہ فلمیں پوری طرح دکھائی جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ آخری ایام میں بھی اپنی عبادات کو اسی طرح ادا کرتے رہے اور آپ پہلے کی طرح نماز شب اور دوسری دعاؤں میں گریہ فرماتے تھے۔ امام خمینی کی نماز شب کی پابندی ہر ایک کے لیے مثالی اور عجیب تھی، انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنی شب کی نماز نہیں چھوڑی۔ ان کے بیٹے، حجت الاسلام سید احمد خمینی، نقل کرتے ہیں: "جس رات ہمیں اگلے دن عراق سے نکلنا تھا، امام کے گھر میں عجیب صورت حال تھی۔ میری ماں، میری بہن اور سب غیر معمولی حالت میں تھے۔ میرے تمام حواس اور توجہ امام پر تھی، لیکن وہ پچھلی راتوں کی طرح مقررہ وقت پر سوئے اور ہمیشہ کی طرح اذان سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے اٹھے اور اپنی عبادات کو انجام دیا۔" انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ پیرس سے تہران واپسی کی رات بھی ہوائی جہاز مین امام نے نماز شب نہیں چھوڑی تھی: "جب امام پیرس سے تہران آئے تو انہوں نے رات کی نماز ہوائی جہاز میں ادا کی۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لیے قطب نما کو استعمال کیا، لیکن وہ کام نہیں کر رہا تھا، جب ہم نے پائلٹ کو بتایا تو اس نے وضاحت کی کہ کمپاس جہاز میں کام نہیں کر رہا ہے، امام نے اس سے پوچھا کہ مکہ کس طرف ہے؟ پائلٹ نے سمت دکھائی اور امام نے اسی سمت میں نماز شب ادا کی۔”