اداریہ
شمشیر القدس نامی حالیہ انتفاضہ اپنے بہت سے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ مقاومت کے میزائلوں کے بارود نے اتنا کام نہیں دکھایا جتنا ان میزائلوں کے خوف نے صیہونیوں کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق 70 سے 75 فیصد صیہونی آبادی سائرن کے بجتے ہی پناہ گاہوں کی طرف دوڑ پڑتی ہے اور کئی کئی گھنٹوں تک خوف کے عالم میں وہاں وقت گزارتی ہے۔ نفسیاتی مسائل صیہونی آبادی میں تیزی سے سرایت کر رہے ہیں۔ اسرائيل کے نفسیاتی امراض کے مرکز کی سربراہ کے بقول: اسرائیلی سماج میں خوف و دہشت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہمیں اس سلسلے میں مدد کے لئے کچھ ہی دنوں میں چھے ہزار سے زائد ٹیلی فون کال موصول ہوئي ہے۔
سن دو ہزار گيارہ کی مسلحانہ انتفاضہ تحریک میں اسرائيل کی "سلیکن ویلی" سے نوے ہائی ٹیک کمپنیاں لندن اور نیویارک چلی گئی تھیں اور اسرائيل کی سیاحت کی صنعت پوری طرح تباہ ہوگئی تھی جبکہ اس بار صورت حال ماضی سے زیادہ خطرناک ہے۔ تجزیہ نگار عبدالباری عطوان کے مطابق غاصب صیہونی حکومت میں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، جو یقینی طور پر کورونا کے دور میں اسرائيلی معیشت کے لئے کاری ضرب ہے، جس کے نتیجے میں مالدار یہودی، اپنا سرمایہ سمیٹ کر مغرب کے محفوظ ملکوں کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر اب جنگ بندی ہو بھی جاتی ہے تو خوفزدہ سہمے ہوئے صیہونی سرمایہ داروں کو مقبوضہ علاقوں میں روکنا مشکل ہو جائیگا، وہ بھی ایسی حالت میں کہ اب ویسٹ بنک اور 1948ء کا مقبوضہ علاقہ بھی صیہونیوں کے لئے محفوظ نہیں رہا ہے۔