اداریہ
عالمی اداروں کی طرح عرب دنیا بھی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ظلم اور بربریت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ عالمی برادری اور عرب ممالک بڑی طاقتوں کی جانب سے جعلی صیہونی ریاست کی موثر حمایت کی وجہ سے غاضبانہ قبضے اور انسانی حقوق کی کھلی و منظم خلاف ورزی کا شکار ہونے والوں کے درد کا مداوا کرنے کی غرض سے کوئی قابل توجہ قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ تمام مسلمہ بین الاقوامی معاہدوں اور کنوینشنوں کی رو سے عام شہریوں پر حملہ اور بے گناہ عورتوں اور بچوں پر دست درازی ممنوع ہے، ایسا کرنے والے جنگی مجرم سمجھے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرح عرب لیگ اور سعودی سرپرستی میں چلنے والی او ائی سی بھی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تواتر کے ساتھ کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لاتعلق اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ صیہونی اب کونسا جرم انجام دیں گے کہ جس کے بعد عرب دنیا اور اسلامی ممالک، اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کریں گے۔
اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد تو وہ کمترین اقدام ہے، جو اسلامی ممالک فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے فوری انجام دے سکتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے عرب دنیا کسی معجزہ کے انتظار میں ہے یا کسی مخصوص اشارے کی منتظر ہے۔ عرب دنیا کی بجائے دنیا بھر کے حریت پسند انسانوں کو بلا تفریق دین و مذہب، فلسطین کی مظلومیت کے بھرپور دفاع کے لیے میدان میں اترنا ہوگا اور دہشت گردی کے صیہونی اڈے کے خلاف ڈٹ جانا ہی ایسا طوفان ثابت ہوسکتا ہے، جس کے سامنے آئرن ڈوم تو کیا کوئی بھی دفاعی نظام نہیں ٹھہر پائے گا، کیونکہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے یوم القدس کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے براہ راست خطاب میں فرمایا تھا کہ صیہونیوں نے پہلے دن سے ہی فلسطین کو دہشتگردی کے اڈے میں بدل دیا تھا۔ اسرائیل کوئی "ملک" نہیں بلکہ وہ فلسطینی اور دوسری مسلمان اقوام کے خلاف تشکیل دیا گیا "دہشتگردی کا ایک اڈہ" ہے، لہذا اس کے خلاف جدوجہد "ظلم و دہشتگردی کے خلاف جدوجہد" ہے، جو ایک "عوامی فریضہ" ہے۔