1
0
Saturday 14 Dec 2024 18:12

علامہ سید محمد رضی مجتہد کا زندگی نامہ

علامہ سید محمد رضی مجتہد کا زندگی نامہ
تحریر: ساجد علی گوندل

آپ کی ولادت ہندوستان کے مشہور و معروف علمی مرکز لکھنو میں، دسمبر 1913ء بمطابق 1332ھ ماہ صفر میں ہوئی۔ آپ کے اجداد کا وطن امروہ ضلع مراد آباد ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰ مبرقع فرزند امام محمد تقی علیہ اسلام کے واسطے سے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ آپ کے سلسلہ نسب میں زیادہ تر علماء یا ایسے بزرگ ہیں کہ جو بلند ترین روحانی ریاضت یا پھر عسکری اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔ آپ کے والد سید العلماء مولانا سید محمد صاحب قبلہ مجتہد تھے، جن کا انتقال جوانی میں ہوا۔ اس وقت علامہ کی عمر پانچ سال سے کچھ زیادہ تھی۔ آپ کے دادا آیت الله العظمیٰ مولانا سید نجم الحسن صاحب تھے، جن کا نام اسلامی دنیا میں سورج کی طرح روشن ہے۔ علامہ کی دادی مرحومہ کے والد آیت اللہ اعظمیٰ مفتی سید محمد عباس موسوی شوستری مفتی اعظم سلطنت اودھ تھے، نیز علامہ کے نانا بر صغیر کے عظیم ترین مجتہد آیت اللہ العظمیٰ جناب سید مصطفےٰ عرف میر آغا صاحب تھے، قبلہ امام جمعہ جامع مسجد آصفی لکھنو تھے۔

علامہ سید محمد رضی کے والد ماجد تقوی سادات میں سے جبکہ والدہ نقوی اور دادی موسوی تھیں۔ علامہ کی شادی حجت السلام و المسلمین مولانا سید کلب حسین صاحب کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ علامہ نے ابتدائی تعلیم لکھنو کے مشہور علمی مرکز ناظمیہ عربی کالج میں حاصل کی اور انیس سال کی عمر میں آپ کو کالج کی آخری سند ممتاز الا فاضل نمایاں نمبروں سے ملی۔ علامہ نے 1939ء سے قبل دس سال تک ناظمیہ عربی کالج میں بحیثیت وائس پرنسپل اور کبھی بحیثیت پر نسپل تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ اس زمانہ میں آپ نے حقوق نسواں اور اسلام نیز اسلامی مساوات کے عنوان سے دو کتابیں لکھیں، جو بہت مقبول ہوئیں۔ متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی، جہاں آپ کو دعوت تقریر نہ دی گئی ہو اور آپ کی تقریروں سے لوگ فیضیاب نہ ہوئے ہوں۔

رنگون (برما) سے لے کر ڈیرہ اسمعیل خاں تک آپ کی تحریر و تقریر کا شہرہ تھا اور باوجود کم سنی کے، آپ صف اول کے خطیب شمار کیے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں آپ حیدر آباد (دکن) بھی تشریف لے گئے اور اعلیٰ حضرت نظام طاب سراہ کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ حیدر آباد (دکن) کا پہلا سفر مجالس محرم کے سلسلہ میں ہوا اور آخری مجلس کو سننے کے لیے نظام دکن خاص طور پر تشریف لائے تھے اور کافی دیر تک مجلس میں شریک رہے اور بار بار بلند آواز اور انتہائی والہانہ انداز میں علامہ کے زور بیان کی تعریف کرتے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ وہ تقریر کو جلد ختم نہ کریں، پھر حیدر آباد کے ایک مشہور سرکاری اخبار میں علامہ کے متعلق اپنے تعریفی الفاظ بھی شائع کرائے۔

اسی زمانہ میں علامہ نے لکھنو میں آیت اللہ العظمیٰ مولانا سید سبط حسین صاحب قبلہ سے درس اجتهاد حاصل کرنا شروع کیا۔ سید سبط حسین مرحوم خاندان اجتہاد کے عظیم ترین علماء سے تھے، جنھوں نے اٹھارہ سال تک نجف اشرف میں علماء و فقہا کو درس اجتہاد دیا اور اپنے دور کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ سرکار مرحوم سے علامہ سید رضی نے درس اجتہاد کی تکمیل کی، جس کے بعد بطور امتحان آپ کے استاد نے آپ کو ایک مشکل شرعی مسئلہ کی تحقیق کی طرف دعوت دی اور اس علمی کاوش کے لیے تین ماہ کا وقت معین فرمایا، مگر آپ نے استاد محترم کے اس حکم کی تعمیل صرف سات روز میں کر دی، جس پر خوش ہو کر استاد نے علامہ کو خصوصی اجازہ اجتہاد عطا فرمایا اور عماد العلماء کا خطاب دیا، نیز علامہ کی اس تحقیق کا عنوان نجوم الافکار ہے، جو عربی زبان میں ہے اور یہ اہل علم کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔

علامہ سید محمد رضی تفسیر، فقہ، کلام، فلسفہ و منطق، ہئیت اور دیگر اسلامی علوم میں مثالی مہارت کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ علامہ کی نثر نگاری اور تحریر ان کی تقریروں اور خطابت کی طرح اپنی آپ مثال ہے، جس کا اندازہ ان کے مقالات اور مضامین سے ہر صاحب علم آسانی سے لگا سکتا ہے۔ علمی بلندی کے ساتھ ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی طرح علامہ کو روحانی ریاضت سے ہمیشہ لگاؤ رہا۔ انھوں نے علم جفر اور اس کی شاخوں کا بڑی عرق ریزی سے برسوں مطالعہ کیا اور اپنی عمر کا ایک قیمتی حصہ ریاضت ہی میں گزار دیا۔ علامہ ابتدا ہی سے اتحاد اسلامی کے زبر دست حامی رہے، چنانچہ لکھنو میں آپ مرکز تبلیغ اسلام اور مرکز اتحاد السلام جیسی مشہور تنظیموں کے صدر تھے اور اس سلسلے میں موصوف نے 1946ء میں ایک پبلک ایوننگ پرائمری اسکول بھی قائم کیا، جس کی ابتدا صرف دس آنہ کی چٹائی پر علامہ کے مکان کے ایک کمرے میں ہوئی اور کچھ ہی روز میں وہ ترقی کرکے جونئیر ہائی اسکول بن گیا۔

اس اسکول میں ہر فرقہ کے مسلمان بچے شام سے رات تک تعلیم حاصل کرتے، خصوصاً مزدور بچے جو دن بھر مزدوری کرتے اور شام کو اپنے کاموں سے فارغ ہوکر روساء کے بچوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے اور علم سے بہرہ مند ہوتے۔ اس اسکول میں اچھوت لڑکوں کو بھی تعلیم کی پوری سہولت دی جاتی اور ان کے ساتھ اسی مساوات کا برتاؤ کیا جاتا، جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اپنی نوعیت کے اس انوکھے اسکول کو ملک کے ہر طبقہ میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے قیام پر علامہ کو متحدہ ہندوستان کے تمام والیان ریاست، علماء، سیاسی زعماء اور اور انگریز گورنروں نے مبارکباد کے پیغام بھیجے۔ 1939ء میں علامہ نجف اشرف (عراق) تحمیل علم کے لیے گئے، جہاں آپ کا قیام تقریباً دو سال رہا۔

آپ کے اساتذہ میں ایک عظیم شخصیت آیت اللہ العظمیٰ میرزا حسین بجنوری کی ہے، جنھوں نے سرکار نجم العلماء کو اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں نجف میں چالیس سال سے درس اجتہاد دے رہا ہوں، مگر میں نے ایسا لائق و فائق طالب علم آج تک نہ ایرانیوں میں دیکھا ہے اور نہ ہندوستانیوں میں۔ نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ میں مراجع تقلید حجت الاسلام آقای ابوالحسن الاصفهانی، آقای ضیاء الدین العراقی اور آقای عبد الحسین رشتی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام علماء نے آپ کو اجازہ اجتہاد بھی دیا۔ سید محمد رضی اکتوبر 1948ء میں پاکستان تشریف لائے اور پھر مشرقی افریقہ اور جزیرہ مڈگاسکر کا سفر کیا نیز ہر جگہ آپ کا شاہانہ استقبال کیا گیا اور آپ کی اپیل پر اہل مڈگاسکر نے ایک لاکھ روپے کے قریب فنڈ جمع کیا، جو حکومت فرانس کی خصوصی اجازت سے کراچی منتقل ہوا اور آپ نے اس رقم سے حسینی ہائی اسکول کے نام سے بچے اور بچیوں کے لیے الگ الگ اسکول قائم کیا۔

کراچی میں علامہ ایک عرصے تک جمعیت العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری رہے، اس جمعیت کی ورکنگ کمیٹی میں کافی ممالک کے سفیر بحیثیت ممبر شامل تھے۔ کراچی میں آپ نے مشہور عرب سفیروں کو اردو زبان کی تعلیم بھی دی، چنانچہ ڈاکٹر عبد الوہاب عزام مرحوم سفیر مصر اور جناب عمر بهاء الامیری سابق سفیر شام وغیرہ آپ کے شاگرد تھے۔ سابق سر آغا خان بھی جمعیت العربیہ کے خاص ممبران میں سے تھے۔ علامہ نے انگریزی زبان کی تحصیل میں بھی کافی وقت صرف کیا اور 1957ء میں پٹ مین کالج لندن سے فرسٹ کلاس ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1978ء میں حکومت پاکستان نے علامہ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر منتخب کیا۔ آپ کا انتقال 28 جولائی 1999ء کو کراچی میں ہوا اور آپ کی تدفین آپ کے قائم کردہ ادارے و مسجد زین العابدین، ناگن چورنگی، کراچی میں ہوئی۔

علامہ کے آثار میں تقریباً 85 سے زائد کتاہیں اور رسالے ایسے ہیں کہ جو طبع ہوئے۔ علامہ سید محمد رضی کے کچھ آثار کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
نجوم الافكار
خطبات
اسلام کا فکری نظام
مسلم معاشرہ
درس قرآن حکیم
شہادت کبریٰ
تاریخ انبیاء
فلسفه نفس و روح
تاریخ آباء رسول ص
حقوق نسواں اور اسلام
اسلامی مساوات
منابع: خطبات و شہادت کبریٰ
خبر کا کوڈ : 1178303
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ساجد علی گوندل
China
سید محمد رضی مجتہد کی کتاب شہادتِ کبریٰ 13جلدوں میں ہے، جن میں سے فقط پہلی جلد ہم تک پہنچی ہے ۔۔۔۔ 12 خطی نسخے ہیں، جو چاپ نہیں ہوسکے۔
ہماری پیشکش