0
Tuesday 22 Oct 2024 09:45

ڈرون پر ٹوٹی چھڑی کی فتح

ڈرون پر ٹوٹی چھڑی کی فتح
تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.com

لمحوں پر محیط حرکت، ایک تاریخ بن جاتی ہے۔ تاریخ تکرار ہوتی رہتی ہے۔ اس قدر تکرار کہ سیرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور عملی نمونہ بن جاتی ہے۔ وہ حرکت آنے والی نسلوں کے لیے ایک استعارہ، نشان اور علامت بن جاتی ہے۔ وہی علامت کسی ایک خاص ہدف کے لئے اصطلاح بن جاتی ہے۔ وہی اصطلاح ایک طوفان بپا کرتی ہے اور نئی نسلوں کے اندر عشق و محبت، غیرت و حمیت، شجاعت و بہادری، عزت و شرافت، عقلانیت و عدالت، استقامت و مزاحمت، حریت و آزادی اور بصیرت و دوراندیشی جیسی صفات کو جنم دیتی ہے۔ مردہ ضمیر انسانوں کو انسانیت کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ انہی حرکتوں میں سے ایک حرکت، شہید یحییٰ سنوار کی شہادت سے پہلے آخری حرکت ہے۔ وہ حرکت ٹوٹی ہوئی چھڑی سے ڈرون کیمرے کی طرف حملہ کرنا ہے۔ جو آخری لمحے تک قدس کی آزادی کے لیے صف اول میں لڑتے رہے۔ اپنے سپاہیوں اور نئی نسل کے لیے قدس کی آزادی اور مقاومت کا ایک اور باب کھول کر چلے گئے۔

بیت المقدس سے غسل شہادت کے بعد تقدیس کے ساتھ نورِ پردۂ قدس پر بیٹھ کر معراج کی طرف پرواز کر گئے، کیونکہ قدس شعار الہیٰ ہے۔ عشق و استقامت اور حریت پسندوں کا شہر ہے۔ قدس اس جراحت کا مظہر ہے، جس نے امتِ محمدی کے دل کو زخمی کیا ہے۔ یہ زخم خون کے علاوہ کسی چیز سے دھویا نہیں جا سکتا۔ خون وہی دے سکتا ہے، جو آزاد، جنگ جو، دلیر، شجاع، غیرت مند، با ضمیر اور میدانِ عشق کا بے خوف سپاہی ہو۔ دین و مکتب، مذہب و مسلک، گروہ و فرقہ سے بالاتر ہو کر جہانی سوچ کے مستضعفین عالم کی حمایت میں مستکبرین عالم کے ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور جان دینے یا سر کٹانے سے نہ ڈرتا ہو۔

گروہ مستضعفین میں سے خاکی لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جو مستکبرین کے مقابلے میں طوفان بن کر مزاحمت و مقاومت کا استعارہ بنتے ہیں۔ مکتب و مسلک، دین و مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بقا کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ شہید حسن نصراللہ اور شہید سنوار وہ شخصیات ہیں، جو مستکبرین عالم کے مقابلے میں بہادری و مزاحمت کا درخشاں چہرہ ہیں۔ جو نئی نسل کو مقاومت کا راستہ اپنے عمل سے سمجھا کر گئے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ہاتھوں کے اشارے سے لے کر لکڑی سے دشمن کی طرف حملہ کرنے کی حرکت کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ اور سیرت کے طور پر چھوڑ گئے۔

یہ امت مسلمہ اور اس کے حکمران ہیں، جن میں غیرت و حمیت، شجاعت و دلیری، مردانگی اور حریت و آزادی نامی کوئی چیز باقی نہیں ہے بلکہ بے غیرتی، غلامی، بزدلی ان کے سر کا تاج ہے۔ جس میں سرفہرست سعودی عرب، ترکی، مصر، اردن اور پاکستان شامل ہیں۔ ایک طرف دشمن کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرتے تو دوسری طرف تیل فراہم کرکے دشمن کی ریڑھ کی ہڈی کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ ایک طرف دو ریاستی حل کا نعرہ لگا کر اور دوسری طرف شہداء مقاومت کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرکے دشمن کو حوصلہ دے رہے ہیں اور رہی سہی کسر خاموش تماشائی پوری کر دیتے ہیں۔ مستضعفین کی حمایت کی بجائے مستکبرین عالم کے تلوے چاٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ حرکت مسلمانیت اور انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم تاریخ عالم میں کہاں اور کن کے ساتھ کھڑے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 1167928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش