0
Friday 18 Oct 2024 17:41

اسرائیل خطے میں کس کی پراکسی

اسرائیل خطے میں کس کی پراکسی
نقطہ نظر: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی

فارس خبر رساں ایجنسی کے پولیٹیکل رپورٹر کے مطابق، خطے کے امور کے ماہر سعد اللہ زارعی نے آج تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں سے قبل ایک تقریر میں خطے کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہم انتہائی حساس دور سے گزر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کے مجرموں نے مغرب کی عطا کردہ امداد اور حمایت نیز اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فلسطین اور لبنان کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ آج صیہونی حکومت امت اسلامیہ پر حملہ آور ہے اور دوسری طرف امت مقاومت بھی زبردست دفاع کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آج دوست دشمن اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ملت فلسطین اور امت مقاومت کا دفاع نہایت واضح اور نمایاں انداز میں جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ آج جو کچھ ہم غزہ اور لبنان میں دیکھ رہے ہیں، وہ انقلاب اسلامی کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کا دفاعی آپریشن ہے اور یہ سب سے مکمل اور واضح تعبیر ہے، جو ان تنازعات اور جنگوں کو بیان کرنے کے حوالے سے استعمال کی جا سکتی ہے۔

علاقائی امور کے اس ماہر نے مزید کہا ہے کہ غاصب حکومت کے سابق اور ملعون وزیراعظم موشے دایان کا انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد ایک مشہور اور تاریخی جملہ ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ ہی ایران میں ایک زلزلہ برپا ہوا ہے اور اب ایران نہ صرف مشرق وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دے گا بلکہ اس زلزلے کے اثرات پوری دنیا تک پھیلیں گے۔ سعد اللہ زارعی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً تین سال قبل اسرائیل کی فارن انٹیلی جنس سروس (موساد) کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے ہاریٹز اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون "اسرائیل کا زوال" میں ایک جملہ لکھا تھا کہ ہم نے اپنی بقاء کے تمام عوامل کھو دیئے ہیں۔بلاشبہ یہ ان کا وہ اعتراف ہے، جس سے آج وہ دوچار ہیں۔ سعد اللہ زارعی نے تاکید کی ہے کہ آج ہم خطے کے اس حساس منظرنامہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ اسلام اور مغرب و اسرائیل کے درمیان سرنوشت ساز جنگ ہے۔ موجودہ صورت حال اس جنگ کا صرف ایک منظر ہے۔ لیکن یہ منظرنامہ ایک ایسا تنازعہ ہے، جو مغربی دنیا نے عالم اسلام کے خلاف شروع کی ہے۔

علاقائی مسائل کے ماہر سعد اللہ زارعی نے مزید کہا ہے کہ فرانس کے صدر میکرون نے حال ہی میں یورپی سفیروں کے ساتھ ملاقات میں ایک انتہائی اہم بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا  ہے کہ اگر ہم مشرق وسطیٰ میں ہیں تو اقتدار میں ہوں گے اور اگر ہم مشرق وسطیٰ میں نہیں ہیں تو ہم دنیا میں نہیں ہیں۔ میکرون کے بقول ہم ثقافتی اور انسانی میدان میں ناکام ہوچکے ہیں اور ایشیائی ثقافت (اسلامی ثقافت) دنیا پر غلبہ حاصل کر رہی ہے۔ زارعی نے مزید کہا ہے کہ آج مغرب بین الاقوامی سطح پر اسلام کی لہروں کے سامنے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ادھر نیتن یاہو نے برسلز میں یورپی رہنماؤں کے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل کو تباہ کیا گیا تو دنیا میں عظیم واقعات رونما ہوں گے، یعنی وہ کہہ رہا ہے کہ ہم یہ سرزمین نہیں چھوڑیں گے اور اگر ہمیں چھوڑنی پڑی تو ہم پہلے تمام دنیا کو تباہ کر دیں گے، ہم لڑیں گے اور مسلسل لڑیں گے، یہ اسرائیل کی فطرت اور جنگی ماہیت ہے۔

زارعی نے واضح کیا کہ اس مسئلہ کے علاوہ امریکی صدر بائیڈن کا ایک جملہ بھی قابل غور ہے، جو انہوں نے حال ہی میں دہرایا ہے، البتہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر آج اسرائیل نہ ہوتا تو آج ہم ایک اسرائیل خود تشکیل دیتے۔ ایک صہیونی اخبار بھی کہتا ہے کہ اسرائیل خطے میں مغرب کی علامت اور پراکسی ہے۔ علاقائی مسائل کے ماہر زارعی نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج مغرب اسرائیل کے دفاع اور حمایت کی جو بات کر رہا ہے، وہ دراصل جنگ کا حکم اور انتظام ہے، جو اس کے لیے عالمی تبدیلیوں نیز فیصلہ ساز اور تباہ کن جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ زارعی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ان دنوں کچھ اور واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، جو ہمارے لیے اس تنازعے کی نوعیت کا تعین کرتے ہیں۔ زارعی کے بقول ابھی چند روز قبل یورپی یونین اور خلیج فارس تعاون کونسل نے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا ہے۔

ایسے وقت جب اسرائیلیوں نے فلسطین، فلسطینیوں اور لبنانیوں کے خلاف سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کیا اور حقیقت میں ملت اسلامیہ کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ خطے کے خود ساختہ عرب رہنماء، یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں، اسلامی جمہوریہ پر حملہ کرتے نظر آتے ہیں اور ایران کے خلاف زمین کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ درحقیقت اس مشترکہ اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے پردے کے پیچھے کون ہیں اور جنہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کا آغاز کیا، وہ کون ہیں؟ بعض حکام اپنے کردار کو بہت واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے، لیکن اس طرح کے امور ان کی حقیقی صورت حال کو ظاہر کر رہے ہیں۔ علاقائی امور کے ماہر نے اس بات پر زور دیا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران فلسطین اور غزہ کے سنی باشندوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف عرب حکومتوں کی خاموشی اور بے عملی ان عرب حکمرانوں کے چہرے کو بے نقاب کر رہی ہے۔

یہ سوال پوچھتے ہوئے کہ غزہ اور لبنان کی جنگ میں امریکی پالیسی کیا ہے، سعد اللہ زارعی نے کہا ہے کہ جوبائیڈن اور دیگر امریکی حکام کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا کردار عالمی تبدیلی کے تناظر میں خطے میں اسرائیل کو مستحکم کرنا ہے۔زارعی نے مزید کہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان، عراق، شام، لبنان اور یمن کے خلاف جنگوں سمیت 2000ء سے 2021ء تک ہونے والی نو علاقائی جنگوں میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اس کا انتقام ایران سے لے رہا ہے۔ ادھر مجرم اسرائیل، امت اسلامیہ سے اپنی ذلت آمیز ناکامیوں کا بدلہ لینے میں مصروف ہے۔انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دنیا کی حقیقت اس سے مختلف ہے، جس کے لئے امریکہ ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جرائم کا سہارا لے کر اپنے جعلی اور بدنام اقتدار کو دوبارہ استوار کرسکتے ہیں، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد جاری کی، جس میں کہا گیا کہ تمام ممالک مشترکہ طور پر یا انفرادی طور پر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی لگائیں۔ اس قرارداد کے حق میں 124 ممالک نے ووٹ دیا اور صرف 14 ممالک نے مخالفت کی، جن میں امریکہ، اسرائیل، ارجنٹائن اور چند دیگر  چھوٹے ممالک ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر موثر نہیں ہیں اور ہم نے ان کا نام بھی ٹھیک طرح سے نہیں سنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ منظرنامے میں امریکیوں کو حکومتوں بالخصوص اقوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ علاقائی امور کے ماہر نے مزید کہا ہے کہ ایک سال میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیلی حکومت کے خلاف 11 قراردادیں منظور کیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت کا قانونی جواز تباہ ہوچکا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی قرارداد ہی تھی، جو صیہونی حکومت کی تشکیل کی بنیاد بنی تھی۔

زارعی نے مزید کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی حکومت کے خلاف 11 قراردادیں منظور کی گئی ہیں، وہاں ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے حال ہی میں 83 صفحات اور 282 پیراگراف میں صیہونی حکومت کے اقدامات کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو ایک بدمعاش، چور اور خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہ اس مجرمانہ حکومت کی قانونی حیثیت ہے، جس نے امریکیوں کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اسی تناظر میں زارعی نے مزید کہا ہے کہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے پاس، جو کچھ وہ اس وقت کر رہے ہیں، اس کا کوئی جائز جواز نہیں ہے۔ اب ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ لبنانی عوام کے خلاف 2000 پاؤنڈ کے بم استعمال کریں اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں۔

لیکن جنگ کی تقدیر کا تعین بموں اور بمبار طیاروں سے نہیں ہوتا بلکہ جنگ کی تقدیر کا تعین اللہ تعالیٰ اور عوام کی استقامت سے ہوتا ہے۔ علاقائی مسائل کے ماہر نے مزید  کہا کہ اس جنگ میں لبنان کی حزب اللہ کو صیہونی جرائم کے خلاف برتری حاصل ہے۔ زارعی نے کہا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ دشمن نے پیجرز کے دھماکوں کے ذریعے رابطے میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، لیکن پچھلے دو ہفتوں میں حزب اللہ اپنے تمام نظام کو ازسرنو منظم اور تبدیل کرنے میں کامیاب رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی مزاحمت ایک طرف فرنٹ لائن پر ایک نرم جنگ میں مصروف ہے اور عین اسی وقت دشمن کے مورچے کے پیچھے نفوذ کرکے اس پر پے در پے وار کر رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1167228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش